Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • مدارس کی ڈوبتی نبض اور چندے کی بیساکھی

    دوسال کے بعد رمضان لاک ڈاؤن سے مکت ہوا تو سفراء جوق در جوق شہروں کی طرف بڑھنے لگے،رمضان میں پورے منظر نامے پر چلتی پھرتی ٹوپیوں کا راج ہوتا ہے ،ایک ماہ کے گھمسان کے بعد ماحول پرسکون ہوجائے گا،چندے کا یہ سلسلۂ نامسعود پہلے بھی تھا اور ہنوز جاری ہے،بس یوں سمجھ لیں کہ مدارس کیلئے چندہ مقدر ہوچکا ہے،صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ رمضان کا چندہ ہوگا تو مدرسہ چلے گا اور اگر نہیں ہوا تو مدرسہ بند رہے گا،لاک ڈاؤن اس کی زندہ مثال ہے،مدارس کے بقاء کے لیے اور کوئی متبادل دور دور تک نظر نہیں آتا،اب اگر مدرسوں کو بند کرنا ہے تو کیا بند کرنا پڑے گا؟یہ آپ سے زیادہ معاندین سمجھتے ہیں،چندے پر اگر قدغن لگتی ہے تو سیکولرزم اور جمہوری حق کا نام نہاد دعویٰ کتنا کام آئے گا؟یہ ہم آئے دن دیکھ رہے ہیں،حجاب اور اذان پر سرکار اور میڈیا کا دوغلاپن ہمارے سامنے ہے، صرف میڈیا ٹرائل چلے گا اور چندہ جرم ٹھہرا دیا جائے گا،پھر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں ہم دلیلیں دیتے رہیں گے،یوپی میں سرکار سے ملحقہ اداروں پر تبدیلی کی تلوار لٹک رہی ہے،تمام سرکاری امداد یافتہ ادارے نئے نصاب اور نئے نظام کے سانچے میں ڈھالے جائیں گے،اس کا عندیہ دے دیا گیا ہے،بیک وقت ہزار کے قریب مدرسین اس فیصلے کی زد میں آئیں گے؟آسام کے مدارس اس کرب سے گزر رہے ہیں،جب ملت کے اکابرین نے مدارس کو سرکاری اعانت لینے سے منع کیا تھا تب کسی نے ان کی بات نہیں سنی تھی،اب چڑھتے سورج کی طرح یقین ہوچلا ہے کہ وہ سب کچھ ہونے جارہا ہے جس کا خدشہ بزرگان دین نے ظاہر کیا تھا،یہ تو سرکاری امداد یافتہ اداروں کا حشر ہوگا،پرائیویٹ اداروں کا مستقبل بھی روشن نہیں ہے،ان کو بند کرنے کے لئے چندے پر قدغن ہی کافی ہوگی۔
    وقت کی نزاکت اور اسلام دشمن سازشیں چندے کی مجبوری کا کوئی علاج چاہتی ہیں،چندہ صرف مدرسے کی مجبوری نہیں بلکہ کثیر مسائل و مشکلات اور قباحتوں کا سامان بھی ہے،علماء کرام کا در در کی ٹھوکریں کھانا،ذلت ورسوائی،رمضان میں دھوپ اور گرمی میں خوار ہونا،بعض جہلاء کی جانب سے بد سلوکیاں،چندے کے میدان میں جعلی مچندین کی لوٹ کھسوٹ وغیرہ وغیرہ ،یہ وہ مسائل ہیں جن سے مخیرین اور مچندین دونوں جوجھ رہے ہیں،اس سے پہلے کہ یہ مجبوری موت کی شکل اختیار کرلے مدارس کو زندہ رہنے کے لئے کسی پائیدار حل کی طرف دھیرے دھیرے بڑھنا ہوگا،چندے کا متبادل ڈھونڈنا ہوگا،وقت اب اجازت نہیں دیتا کہ مدارس کو چندہ کے رحم وکرم پر چھوڑدیا جائے،کبھی بھی چندے کے خلاف کوئی مہم چھیڑی جاسکتی ہے۔
    ابھی بھی ملک میں چند ادارے ہیں جو چندے کی بیساکھی کے بغیر چل رہے ہیں،وہ خود کفیل ہیں،نہ خود چندے کی درخواست کرتے ہیں اور نہ اپنے مدرسین کو در در کی ٹھوکریں کھانے کے لئے قسمت کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہیں،کسی نے زمینوں کی آمدنی پر انحصار کیا ہے،کسی نے پراپرٹی کے کرایہ کو سہارا بنایا ہے،آسام کے ایک ادارے کے بارے میں سنا کہ مدرسے کی ملکیت میں کئی تالاب ہیں جن میں مچھلیاں پالی جاتی اور بیچی جاتی ہیں،اس سے پورے سال ادارہ بلا کسی خسارے کے چل رہا ہے،اہل مدارس دینی تعلیم کے لئے قطرہ قطرہ جمع کرکے ہاسٹل کی عمارت تعمیر کرلیتے ہیں،درسگاہ کی بلڈنگ بھی بن جاتی ہے،مطبخ اور ڈائننگ ہال کا بھی وجود ہوجاتا ہے،اساتذہ کی رہائش گاہ بھی پایۂ تکمیل کو پہنچ جاتی ہے، اتنے بڑے بڑے پروجیکٹ چندے سے پورے کرلئے جاتے ہیں،کیوں ایسا نہیں کیا جاتا کہ ادارے کی مستقل آمدنی کے لئے بھی کسی پروجیکٹ پر کام کیا جاتا،چند سالوں میں اس کی تکمیل کرکے اس کی آمدنی سے مدرسے کے اخراجات پورے کئے جاتے،پھر ایک پروجیکٹ کے بعد دوسرا پروجیکٹ شروع کردیا جاتا،کچھ عمارتیں بنا کر کرائے پر دئے جاتے اور اس کی آمدنی سے مدرسہ چلتا،زمینیں خرید کر اس پر کاشت کی جاتی،سرمایہ کسی بزنس میں لگا کر اس سے آمدنی کی جاتی، مدارس کوعصری نصاب سے ہم آہنگ کرکے ایک جامع نصاب تیار کرکے اسے پڑھانے کی طرف پیش رفت ہو اور فیس سے بھی اخراجات کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے یا پھرمستطیع طلبہ سے فیس لے کر بھی بوجھ کو ہلکا کیا جاسکتا ہے، ذرآئع اور بھی نکل آئیں گے،غور و فکر کی پن چکی کو حرکت میں لائیں گے تو بہتیرے آئیڈیاز سامنے آسکتے ہیں،بس جتنا جلدی ہوسکے چندے کا متبادل تلاش لیا جائے۔
    چند فریبیوں اور جعلی افراد کے سبب مستند اور امین علماء بھی بد سلوکیوں سے دوچار ہوتے ہیں،انہیں بھی مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے،جبکہ وہ نا چاہتے ہوئے چندے کے لئے نکلتے ہیں،ملازمت کی بقا کے لئے ایسا کرنا ان کی مجبوری ہوتی ہے،کیا کریں گے؟درس وتدریس کے ساتھ چندہ بھی لازمی ہوتا ہے،کوئی کتنا ہی باصلاحیت اور معیاری کیوں نہ ہو اگر رمضان میں چندہ نہیں کرسکتا ہے تو ساری صلاحیتیں بے معنیٰ تصور کی جاتی ہیں،رواج ایسا بن گیا ہے کہ قوم کے رہبر قوم کے سامنے گداگری کرتے ہیں اور بعض علماء بیزار ان کے حال زار کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور پھبتیاں بھی کستے ہیں،یہ اس قوم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے علماء کو گداگری کے اس لعنت سے نجات عطا کرے،جب ہم اپنے رہبروں کو چندے کے خارزار میں خوار ہونے کے لئے چھوڑدیں گے تو ان کی تکریم وعزت افزائی کون کرے گا؟نائب رسول کا کیا یہی منصب ہے؟دکانوں کے باہر قطاروں میں کھڑے رہنا کیا انہیں زیب دیتا ہے؟مسجدوں کے گیٹ پر بھکاریوں کی طرح کھڑا رہنا کیا اچھا لگتا ہے؟یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے جس سے چشم پوشی مجرمانہ حد تک بڑھ چکی ہے،یہ ایک ملی ناسور ہے جس کے علاج کی کسی کو فکر نہیں ہے،خطباء کو اس موضوع پر خطاب کرنا چاہیے اور اہل قلم کی جانب سے اس مسئلے کو اٹھایا جانا چاہیے،اس مسئلے کے تئیں عوام کی ذہن سازی ضروری ہے،بھاری بھرکم چندہ کرکے دینے والا مولوی مدرسہ پر دھاک جما کر رکھتا ہے،انتظامیہ کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتا ہے،تعلیم کا جنازہ تو پہلے سے نکل چکا ہے ،کیونکہ جو بہت اچھا چندہ کرتا ہے ضروری نہیں کہ وہ بہت اچھا پڑھائے بھی،اب دودھ دینے والی گائے کی دو لتی تو برداشت کرنی پڑے گی،اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے ۔آمین

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings