Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • تین طلاق اور صحیح مسلم کی حدیث ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ (چھٹویں قسط )

     امام طاؤس رحمہ اللہ پر شیعیت کا اعتراض :
    بعض دیوبندی حضرات نے صحیح مسلم کی اس حدیث کی تضعیف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کی سند میں موجود طاؤس کو امام سفیان ثوری ،امام ابن قتیبہ اور امام ذہبی نے شیعہ کہا ہے۔
    اگلی سطور میں ہم ان میں سے ہر ایک کے تعلق سے وضاحت پیش کرتے ہیں:
    ابن قتیبہ رحمہ اللہ  کے حوالے پرتبصرہ :
    اولاً:
    امام طاؤس کی وفات۱۰۶ہجری ہے ۔[التاریخ الکبیر للبخاری:۴؍۳۶۵]
    اور ابن قتیبہ کی پیدائش ۲۱۳ہجری ہے۔[تاریخ الإسلام ت بشار :۶؍۵۶۵]
    یعنی ابن قتیبہ کی پیدائش امام طاؤس کی وفات کے ایک سو سات سال بعد ہے لہٰذا یہ بے سند بات ہے جو مردود ہے۔
     ثانیاً:
    امام حاکم رحمہ اللہ (المتوفی۴۰۵)نے کہا:
    ’’أجمعت الُأمة على أنّ القُتَيْبِيّ كذّاب ‘‘
    ’’امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ قتیبی (ابن قتیبہ )بہت بڑا جھوٹا ہے‘‘
    [سؤالات السجزی للحاکم:ق ؍۱۱أ ]
    نوٹ: ہم نے مخطوطہ سے حوالہ دیا ہے کیونکہ محقق نے مطبوعہ نسخہ میں القتیبی کو التیمی بنادیاہے ، حالانکہ مخطوطہ میں القتیبی صاف پڑھا جارہاہے ، اسی لیے دکتور احمدبن فارس السلوم نے محقق کی تردید کی ہے ۔ دیکھیے:[مقدمہ کتاب المدخل للحاکم :ص:۲۳]
    نیز امام ذہبی رحمہ اللہ نے ابن قتیبہ کے ترجمہ میں اسی کتاب سے نقل کرتے ہوئے القتیبی ہی درج کیا ہے ۔[تاریخ الإسلام للذہبی ت تدمری:۲۰؍۳۸۳]
    اب اگر امام حاکم رحمہ اللہ کی بات مان لی جائے تو ابن قتیبہ سخت مجروح وناقابل اعتماد ٹھہرے اور اگر امام حاکم کی بات رد کردی جائے اور یہی مناسب ہے تو پھر امام طاؤس کے سلسلے میں ابن قتیبہ کی بے بنیاد بات بھی مردود ہونی چاہیے ۔
    ثالثاً:
    ابوطاہر السلفی نے ابن قتیبہ پر بدمذہب ہونے کی جرح کی تو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی تشریح کرتے ہوئے کہا:
    ’’مراد السلفي بالمذهب النصب فإن فى ابن قتيبة انحرافا عن أهل البيت والحاكم على الضد من ذلك‘‘
    ’’ابوطاہر السلفی کی مذہب کی جرح سے مراد ناصبیت کی جرح ہے کیونکہ ابن قتیبہ کے یہاں اہل بیت سے متعلق انحراف پایا جاتا ہے اور حاکم کا معاملہ اس کے برعکس ہے‘‘
    [لسان المیزان ت أبی غدۃ:۵؍۱۱]
    اب غور کریں کہ جس پر ناصبیت کا الزام ہو اس کا کسی کوشیعہ کہنے کا کیا اعتبار ہوسکتا ہے !
     رابعاً:
    ابن قتیبہ نے صرف طاؤس ہی کو شیعہ نہیں کہا ہے بلکہ انہوں نے امام طاؤس کے ساتھ بڑے بڑے ائمہ حدیث کو بھی شیعہ کہہ دیا ان کے مکمل الفاظ یہ ہیں:
    ’’الشيعة: الحارث الأعور، وصعصعة بن صوحان، والأصبغ بن نباتة، وعطية العوفيّ، وطاؤس، وسليمان الأعمش، وأبو إسحاق السّبيعيّ، وأبو صادق، وسلمة بن كهبل، والحكم بن عتيبة ، وسالم بن أبي الجعد، وإبراهيم النّخعيّ، وحبّة بن جوين، وحبيب بن أبي ثابت، ومنصور بن المعتمر، وسفيان الثوريّ، وشعبة ابن الحجاج، وفطر بن خليفة، والحسن بن صالح بن حيّ، وشريك، وأبو إسرائيل الملائي، ومحمد بن فضيل ، ووكيع بن الجراح، وحميد الرّؤاسيّ، وزيد بن الحباب، والفضل بن دكين، والمسعودي الأصغر، وعبيد اللّٰه بن موسي، وجرير بن عبد الحميد، وعبد اللّٰه بن داؤد، وهشيم، وسليمان التيمي، وعوف الأعرابيّ، وجعفر الضّبعيّ ، ويحيي بن سعيد القطان، وابن لهيعة، وهشام بن عمار، والمغيرة، صاحب إبراهيم، ومعروف بن خرّبوذ، وعبد الرزاق، ومعمر، وعلي ابن الجعد‘‘
    [المعارف لابن قتیبہ:۱؍۶۲۴]
    ملاحظہ فرمائیں ان میں شعبہ ، وکیع اور یحییٰ بن سعید القطان وغیرہم حتیٰ کہ سفیان ثوری کا بھی تذکرہ ہے۔اب کیا ان سب کو شیعہ مان کر ان کی روایات رد کردی جائیں ؟
     سفیان ثوری رحمہ اللہ کے حوالے پر تبصرہ :
    یہ بات سب سے پہلے امام ابن ابی خیثمہ نے ان الفاظ میں ذکر کی ہے:
    ’’وزعم علی بن المدینی، قال:قال یحیی بن سعید:قال سفیان بن سعید:کان طاؤس یتشیع‘‘
    ’’علی بن المدینی نے گمان کرتے ہوئے کہا کہ :یحییٰ بن سعید نے کہا کہ سفیان بن سعید (ثوری)نے کہا کہ: طاؤس تشیع ظاہر کرتے تھے‘‘
    [تاریخ ابن أبی خیثمۃ:۱؍۳۱۰]
    ژ اولاً:
    سفیان ثوری رحمہ اللہ کے کلام میں کوئی تفصیل نہیں ہے کہ تشیع سے ان کی مراد کیا ہے ۔نیزامام طاؤس رحمہ اللہ سے سفیان ثوری رحمہ اللہ کی ملاقات کا کوئی ثبوت نہیں ہے ، اس لیے ظاہر ہے کہ انہوں نے کسی روایت کی بنیاد پر امام طاؤس کے بارے میں ایسا کہا ہے ، لیکن کسی بھی صحیح روایت سے امام طاؤس رحمہ اللہ کا کسی بھی طرح کا تشیع ثابت نہیں ہے ، اسی لیے امام ذہبی رحمہ اللہ نے سفیان ثوری رحمہ اللہ کے کلام کو تسلیم نہیں کیاہے ، بلکہ خود اہل تشیع نے سفیان ثوری کی بات کو رد کردیا ہے کماسیأتی۔
    البتہ سفیان ثور ی رحمہ اللہ نے طاؤس کا یہ قول نقل کیا ہے وہ حجاج کو مومن کہنے والوں پر تعجب کرتے تھے۔ چنانچہ:
    امام ابن أبی شیبۃ رحمہ اللہ (المتوفی۲۳۵)نے کہا:
    حدثنا سفيان، عن معمر، عن ابن طاؤس، عن أبيه، قال:’’عجبت لإخوتنا من أهل العراق يسمون الحجاج مؤمنا ‘‘
    سفیان ثوری نے معمر عن ابن طاؤس کے طریق سے روایت کیا کہ طاؤس نے کہا:’’مجھے اہل عراق پر تعجب ہے کہ وہ حجاج کو مومن کہتے ہیں‘‘
    [الطبقات الکبریٰ ط دار صادر:۵؍۵۴۰،وإسنادہ صحیح و أخرجہ أیضا ابن أبی شیبۃ فی الإیمان :ص:۳۹]
    امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام طاؤس کے اس قول کی یہ تشریح کی ہے کہ یہاں امام طاؤس نے حجاج کے ایمان کامل کی نفی کی ہے اور ان مرجئہ پررد کیا جو حجاج کو اس کی سفاکی کے باوجود مومن کامل سمجھتے ہیں ۔
    [سیر أعلام النبلاء للذہبی: ۵؍۴۴]
    ممکن ہے سفیان ثوری رحمہ اللہ نے امام طاؤس کے اس قول کو مطلق ایمان کی نفی پر محمول کرلیا ہواور اسی سبب انہیں تشیع سے متصف کردیا ہو ،اہل تشیع جو امام طاؤس کو شیعہ نہیں مانتے انہوں نے بھی سفیان ثوری کی طرف سے تشیع کی بات کو اسی پر محمول کیا ہے چنانچہ شیعی مصنف محمد مہدی سید حسن موسوی نے سفیان ثوری کی طرف سے طاؤس سے متعلق تشیع کی بات کی توجیہ کرتے ہوئے کہاہے کہ اس کی یا تو ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ طاؤس نے معاویہ کی مذمت میں ایک روایت نقل کی ہے ،(لیکن یہ روایت امام طاؤس سے ثابت نہیں ہے )۔ شیعی مصنف آگے لکھتاہے کہ :
    ’’أو أن قول طاؤس: عجبت لإخوتنا من أهل العراق يسمون الحجاج مؤمنا‘‘
    ’’یا اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ طاؤس نے یہ کہہ دیا کہ:مجھے اہل عراق پر تعجب ہے کہ وہ حجاج کو مومن کہتے ہیں ‘‘
    [موسوعۃ عبداللّٰہ بن عباس :ص:۳۱۳]
    عرض ہے کہ یہ دوسری بات ثابت ہے جسے سفیان ثوری نے ہی روایت کیاہے ، لیکن یہ بھی ان کے تشیع ہونے کی دلیل نہیں ہے کیونکہ طاؤس کی مراد ایمان کامل کی نفی ہے جیساکہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے تشریح کی ہے ۔
    معلوم ہوا کہ سفیان کی ثابت روایت میں بھی طاؤس کے تشیع کی دلیل نہیں ہے لہٰذا امام طاؤس اس الزام سے بری ہیں۔
    اور خود اہل تشیع بھی اس کے منکر ہیں چنانچہ اہل تشیع کے یہاں محدث جلیل شمار ہونے والا حسین النوری الطبرسی نے اپنی کتاب’’خاتمۃ مستدرک الوسائل‘‘ میں بڑی لمبی چوڑی بحث کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ طاؤس شیعہ نہیں تھے ، بلکہ کٹر سنی تھے اور ابوجعفر الطوسی نے اپنی کتاب میں امام طاؤس رحمہ اللہ کو علی کے اصحاب میں شمار کیا تو اس پر شدید رد کرتے ہوئے حسین النوری الطبرسی لکھتا ہے:
    ’’ولم يذكر قرينة ولو ضعيفة تدل على ميله إلى التشيع ‘‘
    ’’اور اس کے شیعہ ہونے پر کوئی ضعیف سے ضعیف قرینہ بھی مذکور نہیں ہے ‘‘
    [خاتمۃ مستدرک الوسائل :ص:۱۵۱]
    اور آگے امام طاؤس رحمہ اللہ کی شان میں شدید گستاخی کرتے ہوئے لکھتا ہے:
    ’’مع أن ماذكره فى ترجمته كاف فى الدلالة على تسننه فإن من كان شيخه أبا هريرة وراوية مجاهد وعمروبن دينار لحري بأن يعد من كلاب أصحاب النار‘‘
    ’’انہوں نے طاؤس کے ترجمہ میں جو ذکر کیا ہے وہی طاؤس کی سنیت پر دلالت کرنے کے لیے کافی ہے کیونکہ جس کا استاذ ابوہریرہ ہو اور جس کا شاگرد مجاہد اور عمروبن دینار ہو وہ یقینا اس بات کا مستحق ہے کہ اسے جہنم کے کتوں میں شمارکیا جائے ‘‘
    [خاتمۃ مستدرک الوسائل :ص:۱۵۲]
    معاذ اللہ!
    ملاحظہ فرمائیں اہل تشیع کے یہاں محدث جلیل کا درجہ رکھنے والا امام طاؤس رحمہ اللہ سے تشیع کی نفی کررہاہے اور ان کو سنی بتاکر ان کی شان میں شدید گستاخی کررہاہے اور احناف کو شرم نہیں آتی کہ امام طاؤس کو نہ صرف شیعہ کہتے ہیں بلکہ اسی کو بنیاد بناکر صحیح مسلم میں موجود ان کی روایت کو رد کررہے ہیں ۔
     ثانیاً:
    بالفرض مان لیں طاؤس کے اندر تشیع تھا تو طاؤس متقدمین ائمہ میں سے ہیں اور متقدمین کے یہاں تشیع کا وہ معنی نہیں ہے جو متاخرین کے یہاں ہے ۔
    امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی۷۴۸)نے :
    ’’فبدعة صغري كغلو التشيع، أو كالتشيع بلا غلو ولا تحرف، فهذا كثير فى التابعين وتابعيهم مع الدين والورع والصدق۔فلو رد حديث هؤلاء لذهب جملة من الآثار النبوية، وهذه مفسدة بينة ‘‘
    ’’چھوٹی بدعت مثلاًتشیع میں غلو کرنا یا بغیر غلو اور تحریف کے تشیع اختیار کرنا تو یہ بات تابعین اور اتباع تابعین میں بہت ہے ان کی دینداری ، پرہیزگاری اور سچائی کے ساتھ ، تو اگر ان کی روایت رد کردی جائے تو احادیث نبویہ کا ایک بہت بڑا ذخیرہ بے کار ہوجائے گا اور یہ واضح فساد ہے‘‘
    [میزان الاعتدال للذہبی ت البجاوی:۱؍۵]
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی۸۵۲)نے کہا:
    ’’فالتشيع فى عرف المتقدمين هو اعتقاد تفضيل على علي عثمان،وأن عليا كان مصيبا فى حروبه وأن مخالفه مخطء مع تقديم الشيخين وتفضيلهما،وربما اعتقد بعضهم أن عليا أفضل الخلق بعد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليهآله وسلم ،وإذا كان معتقد ذلك ورعا دينا صادقا مجتهدا فلا ترد روايته بهذا،لا سيما إن كان غير داعية،وأما التشيع فى عرف المتأخرين فهو الرفض المحض فلا تقبل رواية الرافضي الغالي‘‘
    ’’متقدمین کے عرف میں تشیع کا مطلب اس بات کا اعتقاد رکھنا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ ، عثمان رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں اور علی رضی اللہ عنہ اپنی جنگوں میں حق پر تھے اور ان کا مخالف غلطی پرتھا ، اور شیخین ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ کے بعد علی رضی اللہ عنہ ہی افضل ہیں ، اور کبھی کبھار ان میں سے بعض کا اعتقاد یہ بھی ہوتا تھا کہ علی رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے بعد سب سے افضل ہیں ، اور جب ایسا اعتقاد رکھنے والا پرہیزگار ، دیندار ، سچا او رمجتہد ہو تو اس اعتقاد کے سبب اس کی روایت رد نہیں کی جائے گی بالخصوص جب وہ اس اعتقاد کی دعوت بھی نہ دیتا ہو ۔ اور جہاں تک متاخرین کے عرف میں تشیع کی بات ہے تو اس سے مراد خالص رافضیت ہے لہٰذا غالی رافضی کی روایت قبول نہیں کی جائے گی‘‘
    [تہذیب التہذیب لابن حجر، ط الہند:۱؍۹۴]
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی اس وضاحت سے معلوم ہو اکہ متقدمین سنی رواۃ میں تشیع کا مطلب علی رضی اللہ عنہ کو عثمان رضی اللہ عنہ یا شیخین رضی اللہ عنہما سے افضل بتانا اور سیاسی لڑائیوں میں علی رضی اللہ عنہ کے مخالفین کو غلط بتانا ہے، یعنی ان رواۃ کے تشیع کا شیعہ فرقہ کے دوسرے عقائد ومسائل سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے ۔
    لہٰذا یہ رواۃ اگر علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت یا ان کے مخالفین کی مذمت سے ہٹ کر دیگر روایات بیان کریں تو ایسی روایات میں ان کے تشیع کے اثر کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
    مولانا سرفراز صفدردیوبندی صاحب حافظ ابن حجررحمہ اللہ کے اسی قول کی روشنی میں لکھتے ہیں:
    ’’حضرات متقدمین کے نزدیک لفظ شیعہ کا اور مفہوم ہے اور حضرات متاخرین کے نزدیک اور ہے ، عوام تو کیا بعض خواص بھی اس فرق سے ناواقف ہیں اور بات کو گڈمڈ کردیتے ہیں ، اور متاخرین کی اصطلاح کو متقدمین کی اصطلاح پر فٹ کردیتے ہیں ، اور اس سے پیچ در پیچ غلطیاں پیدا ہوتی ہیں …الخ‘‘
    [ارشاد الشیعہ: ص: ۱۹، ۲۰]
    مولانا صفدر صاحب دوسری جگہ لکھتے ہیں:
    ’’اصولِ حدیث کی رو سے ثقہ راوی کاخارجی یا جہمی ، معتزلی یا مرجئی وغیرہ ہونا اس کی ثقاہت پر قطعا ًاثر انداز نہیں ہوتا اورصحیحین میں ایسے راوی بکثرت موجود ہیں۔‘‘
    [احسن الکلام :ج :۱،ص:۳۱]
    مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:[المشترک اللفظی فی مصطلحات علماء الحدیث : ص:۲۹۳تا ۳۰۲]
    معلوم ہوا کہ امام طاؤس اور ان جیسے متقدمین پر تشیع کا الزام ثابت بھی ہوجائے تو بھی ان کی روایت رد نہیں کی جائے گی ۔
     امام ذہبی کے حوالے پر تبصرہ :
    دیوبندی مضمون نگار نے جو یہ کہا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی امام طاؤس کو شیعہ کہا ہے تو یہ بات سراسر غلط ہے ، امام ذہبی نے رحمہ اللہ نے اپنی کسی بھی کتاب میں ایسا نہیں کہا ہے بلکہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے یہ بات سفیان ثوری سے نقل ہے اور ایک جگہ اسے نقل کرنے کے بعد اس کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے:
    قلت:’’إن كان فيه تشيع، فهو يسير لا يضر‘‘
    میں(امام ذہبی )کہتاہوں:’’اگران میں تشیع کی بات تھی تو یہ معمولی تشیع ہے جو مضر نہیں ہے‘‘
    [سیر أعلام النبلاء للذہبی:۵؍۴۵]
    ملاحظہ فرمائیں امام ذہبی رحمہ اللہ تو طاؤس پر تشیع کے الزام کو ثابت بھی نہیں مان رہے اور ثابت فرض کرکے جواب دے رہے ہیں ۔اگر ان کے اندر تشیع کی بات تھی تو بھی یہ مضر نہیں ہے کیونکہ متقدمین کا تشیع الگ قسم کا ہوتا تھا جس کی وضاحت اوپر ہوچکی ہے۔
    نیز امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام طاؤس کو بالاتفاق حجت قرار دیتے ہوئے کہا ہے:
    ’’وحديثه فى دواوين الإسلام، وهو حجة باتفاق ‘‘
    ’’طاؤس کی حدیث اسلام کی بڑی کتب میں ہیں اور وہ بالاتفاق حجت ہیں ‘‘
    [سیر أعلام النبلاء للذہبی:۵؍۳۹]
    اس تفصیل سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ امام طاؤس کا تشیع ثابت ہی نہیں ہے اور بالفرض ثابت بھی مان لیں تو اس سے ان کی روایت پر کوئی فرق قطعاً نہیں پڑ سکتا لہٰذا دیوبندی حضرات کا امام طاؤس پر یہ الزام لگانا اور پھر اس کی بنا پر صحیح مسلم میں موجود ان کی حدیث کو ضعیف کہنا بہت بڑا ظلم ہے ۔
    جاری ہے ……

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings