-
فتنوں کی سرزمین عراق کا مشرق میں ہونا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اللہ کے نبی ﷺ نے متعدد احادیث میں عراق کو فتنوں کی سرزمیں قراردیا ہے، اورتاریخ بھی اس بات پرشاہد ہے کہ ہمیشہ بڑے بڑے فتنے عراق ہی سے نمودارہوئے ہیں، اورآج بھی ہم اپنی کھلی آنکھوں سے یہاں کے فتنہ کودیکھ رہے ہیں ، یہ آپ ﷺ کی صداقت کے دلائل میں سے ایک دلیل ہے۔حدیث میں اس تنبیہ سے اللہ کے نبی ﷺ کا مقصد یہی ہے کہ اس سرزمین کے فتنوں سے ہوشیا ر رہا جائے۔
لیکن افسوس ہے کہ بعض لوگوں نے فتنوں کے اس مرکز کو شریعت کا ماخذ بنا رکھا ہے اورجب انہیں متنبہ کیا جاتا ہے اورحدیث پیش کی جاتی ہے تو وہ حدیث کی من مانی تاویل اورمعنوی تحریف پر اترآتے ہیں۔
ذیل میں ایک حدیث پیش کی جارہی ہے جس میں اللہ کے نبی ﷺ نے عراق کو فتنوں کی سرزمیں قراردیا ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا قَالَ:’’رَأَيْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشِيرُ إِلَي المَشْرِقِ فَقَالَ:هَا إِنَّ الفِتْنَةَ هَا هُنَا، إِنَّ الفِتْنَةَ هَا هُنَا مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ‘‘
صحابی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ:’’ میں اللہ کے رسول ﷺ کو مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ فتنہ یہاں ہے فتنہ یہاں ہے جہاں سے شیطان کا سینگ نکلتا ہے۔
[صحیح البخاری :۴؍۱۲۳رقم:۳۲۷۹]
اس حدیث میں مشرق سے مراد عراق ہے اس کا سب سے واضح ثبوت درج ذیل روایت ہے:
امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا حَنْظَلَةُ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:’’رَأَيْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم:يُشِيرُ بِيَدِهِ يَؤُمُّ الْعِرَاق:هَا، إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا، هَا، إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا، – ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ‘‘
صحابی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:’’ میں اللہ کے رسول ﷺ کو اپنے ہاتھ سے عراق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دیکھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ فتنہ یہاں ہے فتنہ یہاں ہے آپ ﷺ نے ایسا تین مرتبہ کہا اورفرمایا یہیں سے شیطان کا سینگ نکلتا ہے‘‘
[مسند أحمد ط الرسالۃ :۱۰؍۳۹۱رقم:۶۳۰۲،واسنادہ صحیح علٰی شرط الشیخین ]
یہ حدیث جو بخاری ومسلم کی شرط پرصحیح اورصریح بھی ہے اس سے مذکورہ بالاحدیث کی مکمل تشریح ہوگئی کہ مشرق سے مراد عراق ہے ، اوریہ مسلّم بات ہے کہ حدیث حدیث کی تشریح ہوتی ہے۔
اس واضح حدیث کے بعد کسی بھی بحث کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے لیکن کیا کیا جائے کچھ لوگ کج بحثی پر اترآتے ہیں ، صحیح اورصریح حدیث کے ہوتے ہوئے بھی لوگوں کو مغالطہ دیتے ہیں کہ حدیث میں مشرق سے مرادعراق نہیں ہے۔
حالانکہ اگربالفرض تھوڑی دیر کے لیے تسلیم کرلیں کہ حدیث میں مشرق سے مراد عراق نہیں ہے تو یہ بات صرف ان احادیث سے متعلق ہوگی جن میں مشرق کا لفظ ہے۔
لیکن ابھی ہم نے مسند احمد سے جو صحیح اورصریح حدیث پیش کی اس کا کیا جواب ہوگا؟
اس میں تو مشرق کا لفظ نہیں بلکہ عراق کا لفظ ہے !
اس کا جواب نہ توآج تک کوئی د ے سکا ہے اورنہ ہی قیامت تک کوئی دے سکے گا۔
اب آئیے اس نکتہ پرنظر کرتے ہیں جس کے سبب مذکورہ بالاحدیث میں مشرق سے عراق مراد ہونے کا انکار کیا جارہا ہے۔
دراصل آج کچھ لوگوں کو اپنی جغرافیہ دانی پر بڑا فخرہے اوروہ نقشہ دکھا تے پھرتے ہیں کہ یہ نقشہ دیکھو اس میں عراق مشرق میں آتا ہی نہیں ہے۔
حالانکہ نقشہ میں بھی عراق مشرق ہی کی سمت میں ہے لیکن اس سے صرفِ نظرکرتے ہوئے یہ بات سنیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے خود اپنی احادیث میں عراق کو مشرق میں بتلایا ہے ، اب جواب دیا جائے کہ آج کے ان نام نہاد نقشہ دانوں کی بات درست ہے یا اللہ کے نبی ﷺکی جنہوں نے کئی احادیث میں عراق کو مشرق میں بتلایا ہے:
ثبوت ملاحظہ ہو:
عَنْ جَابِرٍ قَال:’’خَطَبَنَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:مُهَلُّ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، وَمُهَلُّ أَهْلِ الشَّامِ، مِنَ الْجُحْفَةِ، وَمُهَلُّ أَهْلِ الْيَمَنِ، مِنْ يَلَمْلَمَ، وَمُهَلُّ أَهْلِ نَجْدٍ، مِنْ قَرْنٍ، وَمُهَلُّ أَهْلِ الْمَشْرِقِ مِنْ ذَاتِ عِرْقٍ ‘‘
صحابی جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:’’ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا: اس میں فرمایا اہل مدینہ کے لیے احرام باندھنے کی جگہ ذوالحلیفہ ہے اور اہل شام کے لیے جحفہ ہے اور اہل یمن کے لیے یلملم ہے اور اہل نجد کے لیے قران ہے اور اہل مشرق کے لیے ذات عرق ہے‘‘
[سنن ابن ماجہ :۲؍۹۷۲رقم:۲۹۱۵صحیح بالشواہد] نیزملاحظہ ہو: [شرح معانی الآثار:۲؍۱۱۹رقم:۳۵۲۹]
اس حدیث میں اللہ کے نبی ﷺ نے اس علاقہ کو مشرق کہا ہے جہاں کی میقات ذات عرق ہے۔
اورذات عرق عراق والوں کی میقات ہے۔
یہ حدیث پڑھیں :
جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰهِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا، يُسْأَلُ عَنِ الْمُهَلِّ فَقَالَ:’’سَمِعْت أَحْسَبُهُ رَفَعَ إِلَي النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مُهَلُّ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، وَالطَّرِيقُ الْآخَرُ الْجُحْفَةُ، وَمُهَلُّ أَهْلِ الْعِرَاقِ مِنْ ذَاتِ عِرْقٍ، وَمُهَلُّ أَهْلِ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ، وَمُهَلُّ أَهْلِ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ ‘‘
صحابی جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حج یا عمرہ کا احرام باندھنے کی جگہوں یعنی میقات کے بارے میں پوچھا گیا :’’تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ مدینہ منورہ والوں کے لیے احرام باندھنے کی جگہ ذو الحلیفہ ہے اور دوسرا راستہ جحفہ ہے عراق والوں کے لیے احرام باندھنے کی جگہ ذات عرق ہے اور نجد والوں کے لیے احرام باندھنے کی جگہ قرن ہے جبکہ یمن کے رہنے والوں کے لیے احرام باندھنے کی جگہ یلملم ہے‘‘۔
[صحیح مسلم:۲؍۸۴۱رقم:۱۱۸۳]
مؤخرالذکردونوں احادیث ایک ہی راوی جابر رضی اللہ عنہ سے منقو ل ہے۔
ایک میں ہے کہ اہل مشرق کی میقات ذات عرق ہے ۔
اوردوسری میں ہے کہ عراق کی میقات ذات عرق ہے۔
پس اللہ کے نبی ﷺنے عراق ہی کو مشرق کہا ہے۔
اب فرمانِ رسول ﷺ سے ثابت ہوگیا کہ عراق مشرق میں ہے لہٰذا نقشہ دانی کا دعویٰ کرنے والے حضرات اپنی عقل پر ماتم کریں ، اورمتلاشیانِ حق اچھی طرح سمجھ لیں کہ عراق فرمان رسول ﷺ کے مطابق مشرق میں ہے اوریہی فتنوں کی سرزمین ہے، لہٰذا وہاں کے فتنوں سے خود کو محفوظ رکھیں۔
٭٭٭