Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • تین طلاق اور صحیح مسلم کی حدیث ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ (نویں قسط )

    اعتراض کی دوسری قسم :متن پر اعتراض
    متن پر وارد کردہ اعتراضات چار طرح کے ہیں:
    اول : متن کے ثبوت پر اعتراض
    دوم : متن کے محکم ہونے پر اعتراض
    سوم : متن کے مفہوم پر اعتراض چہارم : متعہ کو لے کر الزامی اعتراض
    متن پر پہلا اعتراض : متن کے ثبوت پر اعتراض
    (الف) : ابوالصھباء کے کلام اوران کے رشتۂ ولاء پر اعتراض
    ء ابوالصھباء کے کلام میں نکارت کا دعویٰ
    اس حدیث پر بعض لوگوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اس کے بعض طرق میں یہ وارد ہے کہ ابوالصھباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’هات من هناتک‘‘ اور’’ ھنات ‘‘یہ لفظ بری باتوں کے لیے آتا ہے پھر اس کا معنیٰ یہ ہوا کہ ابوالصھباء کہتے ہیں کہ اے ابن عباس رضی للہ عنہ آپ اپنی بری اور منکر باتوں میں سے کچھ سنائیں ۔
    ان الفاظ کا یہ مفہوم بیان کرنے کے بعد کہا جاتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک تابعی ایک جلیل القد صحابی کو ایسے کلمات سے مخاطب کرے ؟
    عرض ہے کہ:
    تقلیدی برادری نے اس حدیث پر جو مظالم ڈھائے ہیں انہی میں سے ایک ظلم یہ بھی ہے کہ ان الفاظ کا یہ گستاخانہ مفہوم بیان کردیا ہے ، پھر اس کا سہارا لے کر اس حدیث کے خلاف لوگوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کی ہے، حالانکہ یہ الفاظ اس حدیث کے تمام طرق میں موجود بھی نہیں ہیں ۔
    بہرحال ان الفاظ کا وہ مطلب قطعا ًنہیں ہے جو زبردستی یہاں پہنادیا گیا ہے ، پھر ان الفاظ کا مطلب کیا ہے ؟ اسے سمجھنے کے لیے صحیح بخاری وغیرہ کی ایک دوسری حدیث دیکھیے جس میں اللہ کے نبی ﷺ کی موجودگی میں ایک شخص نے صحابیٔ رسول عامر بن سنان رضی اللہ عنہ کے لیے یہی الفاظ کہے ہیں ، چنانچہ:
    امام بخاری رحمہ اللہ (المتوفی۲۵۶) نے کہا:
    حدثنا مسدد، حدثنا يحيي، عن يزيد بن أبي عبيد مولي سلمة، حدثنا سلمة بن الأكوع، قال: ’’خرجنا مع النبى صلى اللّٰه عليه وسلم إلى خيبر، قال رجل من القوم: أى عامر لو أسمعتنا من هناتك، فنزل يحدو بهم يذكر: تاللّٰه لولا اللّٰه ما اهتدينا…‘‘
    سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :’’کہ ہم نبی ﷺ کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے تو لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا:اے عامر! ہمیں اپنے کچھ کلمات سنائیے تو انہوں نے شعر پڑھنا شروع کیا اور کہنے لگے :اللہ کی قسم ! اگر اللہ نہ ہوتا توہم ہدایت نہ پاتے…‘‘
    [صحیح البخاری ، تحقیق دکتور مصطفی دیب البغا:کتاب الدعوات:۵؍۲۳۳۲،رقم:۵۹۷۲]
    اس حدیث میں ’’ لو أسمعتنا من هناتك‘‘ تک کے الفاظ ہیں ۔
    صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں یہ تصغیر وغیرہ کے ساتھ ہیں لیکن بعض نسخوں میں ایسے ہی ہے ، بلکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نسخہ میں بھی یہی لفظ ہے اسی لیے انہوں نے اس کی شرح کرتے ہوئے کہا:
    ’’وقوله من هناتك بفتح الهاء والنون جمع هنة ‘‘
    ’’حدیث کے الفاظ ’’ من هناتك هاء‘‘ اور نون پر فتحہ ہے اور یہ ’’هنة‘‘ کی جمع ہے‘‘
    [فتح الباری لابن حجر، ط المعرفۃ:۱۱؍۱۳۷]
    نیز حافظ ابن حجررحمہ اللہ فتح الباری میں دوسرے مقام پر اس حدیث کے الفاظ کاحوالہ دیتے ہوئے لکھا:
    ’’ووقع فى الدعوات من وجه آخر عن يزيد بن أبي عبيد لو أسمعتنا من هناتك بغير تصغير‘‘
    ’’اور کتاب الدعوات میں دوسرے طریق سے یزید بن ابی عبید کی روایت میں ہے ’’لو أسمعتنا من هناتك  بغیرتصغیر کے ساتھ ہے‘‘
    [فتح الباری لابن حجر، ط المعرفۃ:۷؍۴۶۵]

    اس سے واضح ہے کہ ابن حجررحمہ اللہ کے نسخہ میں ’’لو أسمعتنا من هنا‘‘تک ہی کے الفاظ ہیں ۔
    نیز اس حدیث کو اسی طریق ابن ابی الدنیا نے بھی روایت کیا ہے اور ان کی روایت میں بھی ’’ أسمعنا من هنا‘‘تک کے الفاظ ہیں۔[الإشراف فی منازل الأشراف :رقم:۳۳۰،وإسنادہ صحیح]
    صحیح بخاری وغیرہ کی اس حدیث میں ان الفاظ کا مطلب کیا ہے؟ اسے بتاتے ہوئے امام ابن الأثیررحمہ اللہ (المتوفی ۶۰۶) لکھتے ہیں:
    ’’وفي حديث ابن الأكوع قال له:ألا تسمعنا من هناتك أى من كلماتك، أو من أراجيزك ‘‘
    ’’ابن الاکوع کی حدیث میں ہے کہ ان(عامر رضی اللہ عنہ) سے کسی نے کہا:کیا آپ اپنے ’’ھنات‘‘ نہیں سنائیں گے، یعنی اپنے کلمات یا اپنے اشعار‘‘
    [النہایۃ فی غریب الحدیث والأثر :۵؍۲۷۹]
    ملاحظہ فرمائیں کہ ابن الاثیر رحمہ اللہ’’ ھنات‘‘ کا سب سے پہلا مطلب کلمات بتار ہے ہیں ، جس سے واضح ہے کہ یہ لفظ کلمات یعنی باتوں اور خبروں وغیرہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔
    اس بنا پر صحیح مسلم میں موجود’’ هات من هنا‘‘تک کا مطلب یہ ہوگا کہ اپنے کلمات یعنی اپنی احادیث میں سے کچھ سنائیے ۔
    نیز مجد الدین الفیروزآبادی (المتوفی ۸۱۷) لکھتے ہیں:
    وهن، كأخ معناه: شيء ، تقول: هذا هنك، أي: شيئك…ج:هنات
    ’’اور’’ ہن‘‘ یہ’’ أخ ‘‘کی طرح ہے اس کا معنی ہے چیز کے ، آپ کہتے ہیں’’ ہذا ہنک‘‘’’ یعنی یہ تمہاری چیز ہے …‘‘اس کی جمع ’’ھنات ‘‘آتی ہے‘‘
    [القاموس المحیط: ص:۱۳۴۶]
    اس اعتبار سے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ’’ہات من ہنا‘‘تک کا مطلب ہوگا کہ اے ابن عباس! آپ اپنی چیزوں میں سے کچھ سنائیے یعنی اپنی احادیث میں سے کچھ سنائیے ۔
    امام شوکانی رحمہ اللہ اسی معنیٰ کے اعتبار سے تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
    ’’فكأن أبا الصهباء قال لابن عباس:هات من الأشياء العلمية التى عندك ‘‘
    ’’گویا کہ ابوالصھباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ :آپ کے پاس جوعلمی چیزیں ہیں ان میں سے کچھ بتائیے ‘‘
    [نیل الأوطار:۶؍۲۷۳]
    خ فائدۃ
    دارقطنی اور ابونعیم کی روایت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ابوالصھباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال کرتے ہوئے تعبیر کیوں استعمال کیا ۔ دراصل ابوالصھباء غالباًشاعر بھی تھے ، جیساکہ خطیب بغدادی کی ایک مسلسل بالشعراء کی سند میں ان کا بھی ذکر ہے اور انہیں بھی شاعر کہا گیا ہے ، اور اس سند میں یہ مشہور شاعر فرزدق کے شاگرد ہیں ، دیکھئے:
    [تاریخ بغداد، مطبعۃ السعادۃ:۳؍۹۸]
    یہ سند صحیح نہیں ہے لیکن ممکن ہے کہ یہ شاعر بھی رہے ہوں ، تو جب یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آئے پہلے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ہی ان سے یہ الفاظ کہے، چنانچہ :
    دارقطنی کی روایت کے الفاظ ہیں:
    أن أبا الصهباء جاء إلى ابن عباس ،فقال له ابن عباس: هات من هنيئاتك ومن صدرك ومما جمعت…الخ
    [سنن الدارقطنی، ت الارنؤوط:۵؍۸۰وإسنادہ حسن]
    اور ابو نعیم کی روایت کے الفاظ ہیں:
    ’’أن أبا الصهباء أتاه فقال له ابن عباس:هات من صدرك أو من هناتك…الخ ‘‘
    [المسند المستخرج علی صحیح مسلم: ۴؍۱۵۳ ،وإسنادہ صحیح]
    یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے کہا تم نے جو کلمات یعنی اشعار یاد کر رکھے ہیں ان میں سے کچھ سناؤ ۔
    یہ ایسے ہی ہے جیسے اوپر حدیث گزرچکی ہے کہ صحابی رسول عامر بن سنان رضی اللہ عنہ سے بھی ایک شخص نے انہیں الفاظِ شعر سنانے کی فرمائش کی ، اسی طرح یہاں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں الفاظ میں شعر سنانے کی فرمائش کی ، اس کے بعد ممکن ہے ابوالصھباء نے پہلے شعر سنایا ہو یا شعر نہیں سنایا لیکن انہی الفاظ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے حدیث سنانے کی فرمائش کردی ، کیونکہ وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے حدیث سننے ہی کے لئے آئے تھے ۔
    ان روایات سے ان الفاظ کا مطلب اور پس منظر دونوں واضح ہوجاتا ہے کہ ان میں کوئی برا مفہوم نہیں ہے ۔
    اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس حدیث کے بعض طرق میں موجود الفاظ’’ ہات من ہنا‘‘تک میں کوئی گستاخانہ مفہوم نہیں ہے لہٰذا ان الفاظ کا سہارا لے کر اس روایت پر طعن کرنا بھی درست نہیں ہے۔
    ء ابوالصھباء کے رشتۂ ولاء پر اعتراض
    بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابن عباس کے موالی میں ابوالصھباء نام کا شخص معروف نہیں ہے ۔
    ابن بطال رحمہ اللہ (المتوفی۴۴۹) کہتے ہیں:
    ’’إن أبا الصهباء الذى سأل ابن عباس عن ذلك لا يعرف فى موالي ابن عباس‘‘
    ’’جس ابوالصھباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ سوال کیا ہے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے موالی میں معروف نہیں ہے‘‘
    [شرح صحیح البخاری لابن بطال:۷؍۳۹۲]
    عرض ہے کہ :
    اولا :
    اس حدیث کے تمام طرق میں ابوالصھباء کا ذکر نہیں ہے ۔لہٰذا ابوالصھباء کا معاملہ کیسا بھی ہو دوسرے طریق سے یہ حدیث صحیح وثابت ہے۔
    ثانیاً:
    اس حدیث میں ابوالصھباء کا ذکر صرف سائل کی حیثیت سے ہے ، راوی کی حیثیت سے نہیں ، کیونکہ ابن عباس سے حدیث کو روایت کرنے والے امام طاؤس رحمہ اللہ ہیں۔
    لہٰذا جب ابوالصھباء حدیث کا راوی نہیں ہے تو اس کی شخصیت پر بحث بالکل فضول و لایعنی امر ہے ، یہ ایسے ہی ہے جیسے تین طلاق کو تین کہنے سے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی بعض فتاویٰ میں کسی سائل کا ذکر ہے لیکن اس کی حالت تو درکنار اس کا نام تک معلوم نہیں ہے ۔
    ظاہر ہے کہ اس کی وجہ ان فتاویٰ کی روایات کو نہیں جھٹلا سکتے کیونکہ یہ مبہم سائل روایت کا راوی نہیں ہے۔
    ثالثا:
    اہل تاریخ اور اہل فن کی طرف سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما یاکسی بھی صحابی کے تمام موالی کے ذکر اور ان کے استیعاب کا اہتمام نہیں ہوا کہ یہ کہہ دیا جائے کہ ان میں ابوالصھباء کا نام نہیں ملتا ۔
    رابعاً:
    کتب رجال وتراجم کے مؤلفین نے ابوالصھباء کو مولیٰ ابن عباس کہا ہے چنانچہ:
    امام عجلی رحمہ اللہ (المتوفی۲۶۱) نے کہا:
    ’’صہیب مولی ابن عباس ‘‘
    ’’صھیب یہ مولیٰ ابن عباس رضی اللہ عنہ ہیں‘‘[تاریخ الثقات للعجلی:ص:۲۳۰]
    امام أبو زرعۃ الرازی رحمہ اللہ (المتوفی۲۶۴) سے سوال وجواب نقل کرتے ہوئے ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے کہا:
    ’’سئل أبو زرعة، عن أبي الصهباء صهيب، مولي ابن عباس، فقال:مديني ثقة ‘‘
    ’’امام ابوزرعہ رحمہ اللہ سے ابوالصھباء صھیب مولیٰ ابن عباس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا:یہ مدینی اور ثقہ ہیں‘‘
    [الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم، ت المعلمی:۴؍۴۴۴،وإسنادہ صحیح]
    معلوم ہوا کہ امام ابو زرعہ اور ان کے شاگرد بھی ابوالصھباء کو مولیٰ ابن عباس جانتے تھے ، اس لیے بعد کے لوگوں کی طرف سے اس رشتہ کا انکار کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔
    امام ابن عبد البر رحمہ اللہ (المتوفی۴۶۳) نے کہا:
    ’’وقد قيل: ان أبا الصهباء صهيب هذا مولي ابن عباس وهو الذى روي عنه فى طلاق الثلاث …الخ ‘‘
    ’’اور کہا گیا ہے کہ ابوالصھباء صھیب یہ مولیٰ ابن عباس ہیں اور یہ وہی ہیں جنہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے تین طلاق والی حدیث روایت کی ہے …‘‘
    [الاستغناء لابن عبدالبر:۲؍۷۸۱]
    امام مزی رحمہ اللہ (المتوفی۷۴۲) نے بھی کہا ہے :
    ’’صهيب أبو الصهباء البكري البصري ، ويقال:المدني ، مولي ابن عباس۔روي عن:مولاه عبد اللّٰه بن عباس‘‘
    ’’صھیب ابوالصھباء ، بکری ، بصری ، ان کو مدنی بھی کہاجاتا ہے یہ ابن عباس کے مولیٰ (آزادہ کردہ ) ہیں اور یہ اپنے مولیٰ (آزاد کرنے والے) عبدللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں‘‘
    [تہذیب الکمال للمزی:۱۳؍۲۴۱]
    حافظ مغلطائی(المتوفی۷۶۲) جن کا معمول تھا امام مزی کی غلطیوں کو ڈھونڈ ڈنڈھ کرنکالنا انہوں نے بھی اس پر تعاقب نہیں کیا ہے بلکہ خود لکھا ہے:
    ’’صهيب أبو الصهباء البكري البصري، وقيل:المدني مولي ابن عباس ‘‘
    ’’صہیب ابوالصھباء بکری ، بصری اور کہا گیا ہے کہ یہ مولیٰ بن عباس رضی اللہ عنہ ہیں‘‘
    [إکمال تہذیب الکمال لمغلطای:۷؍۸]
    خامساً:
    اگر یہ تسلیم کرلیں کہ ابوالصھباء یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مولیٰ نہیں ہیں ، تو اس سے صرف رشتہ ولاء کی نفی کی جاسکتی ہے ، لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی صحبت اور شاگردی کی نفی نہیں کی جاسکتی ہے ، کیونکہ رشتۂ ولاء کا ذکر صرف ایک سند میں ہے لیکن صحبت و شاگردی کا ذکرکئی سندوں میں ہے بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی بعض دوسری احادیث کو انہوں نے روایت بھی کررکھا ہے۔دیکھئے :
    [المعجم الکبیر للطبرانی:۱۲؍۲۰۱وإسنادہ صحیح]
    سادساً:
    یہ بات تو مسلم ہے کہ ابوالصھباء یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھی اور ان کے شاگرد ہیں ، فریقِ مخالف کا اعتراض یہ ہے کہ طلاق والی حدیث میں ان کو ابن عباس رضی اللہ عنہما کا مولیٰ کہا گیا ہے جبکہ ابن عباس کے مولیٰ کے طور پراس نام کا کوئی شخص معروف نہیں ہے ۔
    عرض ہے کہ طلاق والی احادیث کے طرق اور اس کی کئی سندیں ہیں لیکن اس کی صرف اور صرف ایک سند میں ہی ابوالصھباء کو ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مولیٰ کہا گیا ہے وہ سند یہ ہے:
    امام عبد الرزاق الصنعانی رحمہ اللہ (المتوفی۲۱۱) نے کہا:
    عن عمر بن حوشب قال:أخبرني عمرو بن دينار، أن طاؤسا، أخبره قال:دخلت على ابن عباس ومعه مولاه أبو الصهباء ، فسأله أبو الصهباء عن الرجل يطلق امرأته ثلاثا…
    [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمی:۶؍۳۹۲]
    اس سند کو فریقِ مخالف ضعیف مانتے ہیں اور عمر بن حوشب الصنعانی کے بارے میں مجہول کا کلام نقل کرتے ہیں ، مثلاً:
    امام ابن القطان رحمہ اللہ (المتوفی۶۲۸) نے کہا:
    ’’عمر بن حوشب مجهول الحال أيضا ، ولا يعرف روي عنه غير عبد الرزاق ، وهو صنعاني‘‘
    ’’عمربن حوشب بھی مجہول الحال ہے،عبدالرزاق کے علاوہ اس سے کسی دوسرے راوی کا روایت کرنا معروف نہیں ہے اور یہ صنعانی ہے‘‘
    [بیان الوہم والإیہام فی کتاب الأحکام:۵؍۱۰۴]
    امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی۷۴۸) نے کہا:
    ’’عمر بن حوشب، شيخ لعبد الرزاق، يجهل حاله ‘‘
    ’’عمربن حوشب یہ عبدالرزاق کا استاذ ہے اور اس کی حالت مجہول ہے ‘‘
    [میزان الاعتدال للذہبی ت البجاوی:۳؍۱۹۲]
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی۸۵۲) نے کہا:
    ’’عمر بن حوشب الصنعانی مجہول ‘‘،’’ عمربن حوشب صنعانی مجہول ہے‘‘
    [تقریب التہذیب لابن حجر:رقم ۴۸۸۵]
    تو جب فریق مخالف کی نظر میں یہ بات ثابت ہی نہیں ہے کہ طلاق والی حدیث میں موجود ابن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگرد ابوالصھباء کو مولیٰ ابن عباس کہا گیا تو پھر اس بنیاد پر اعتراضات کی ساری عمارت منہدم ہوجاتی ہے۔
    واضح رہے کہ ہماری نظر میں عمر بن حوشب مجہول نہیں بلکہ ثقہ راوی ہے کیونکہ :
    امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے ثقات میں ذکر کیاہے۔[الثقات لابن حبان ط االعثمانیۃ:۸؍۴۳۹]
    نیز ان کے استاذ امام عبدالرزاق رحمہ اللہ نے ایک سند میں انہیں ’’رجل صالح‘‘ کہا ہے چنانچہ:
    امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفی۲۴۱) نے کہا:
    حدثنا عبد الرزاق ، أخبرنا عمر بن حوشب رجل صالح أخبرني عمرو بن دينار ، عن عطاء ، عن رجل ، من هذيل ، قال…
    [مسند أحمد ط المیمنیۃ:۲؍۱۹۹]
    امام عبدالرزاق کا اپنے استاذ عمر بن حوشب کو ’’رجل صالح‘‘ بتاکر ان کے طریق سے حدیث بیان کرنے کا یہی مطلب ہے کہ وہ اسے قابل اعتماد ہی بتا رہے ہیں۔
    بطور مثال عرض ہے کہ مروان بن محمد الطاطری نے بھی اپنے استاذ ابو یزید الخولانی سے ایک روایت بیان کرتے ہوئے انہیں ’’وکان شیخ صدق‘‘ کہا ہے چنانچہ:
    امام أبوداودرحمہ اللہ (المتوفی۲۷۵) نے کہا:
    حدثنا محمود بن خالد الدمشقي، وعبد اللّه بن عبد الرحمن السمرقندي، قالا:حدثنا مروان- قال عبد اللّٰه:حدثنا أبو يزيد الخولاني وكان شيخ صدق وكان ابن وهب يروي عنه، حدثنا سيار بن عبد الرحمن قال محمود:الصدفي عن عكرمة، عن ابن عباس، قال:’’فرض رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم زكاة الفطر طهرة للصائم من اللغو والرفث، وطعمة للمساكين، من أداها قبل الصلاة، فهي زكاة مقبولة، ومن أداها بعد الصلاة، فهي صدقة من الصدقات ‘‘
    عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں :’’کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقۂ فطر صائم کو لغو اور بیہودہ باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کے کھانے کے لیے فرض کیا ہے، لہٰذا جو اسے (عید کی) نماز سے پہلے ادا کرے گا تو یہ مقبول صدقہ ہو گا اور جو اسے نماز کے بعد ادا کرے گا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہو گا ‘‘
    [سنن أبی داؤد:۲؍۱۱۱۱،رقم ۱۶۰۹]
    اس حدیث کو بیان کرتے ہوئے مروان بن محمد الطاطری نے اپنے استاذ ابو یزید الخولانی کو ’’وکان شیخ صدق‘‘ کہاہے ، جس کا مطلب یہی ہے کہ وہ وہ اسے قابل اعتماد ہی بتارہے ہیں۔
    ابو یزید الخولانی کی توثیق میں مروان بن محمد الطاطری کے اس قول کے علاوہ کسی بھی امام کا قول نہیں ملتا ہے ، حتیٰ کہ امام ابن حبان نے بھی اسے ثقات میں ذکر نہیں کیاہے ، لیکن اہل علم نے محض مروان بن محمد الطاطری کی اس تعدیل کے سبب اسے صدوق مانا ہے اور مذکورہ حدیث کو حسن تسلیم کیا ہے ۔
    تو پھراسی اصول سے عمر بن حوشب سے متعلق امام عبدالرزاق کی تعدیل کو بھی حجت ماننا چاہیے اور اس کے ساتھ امام ابن حبان رحمہ اللہ کی توثیق کو شامل کرلیں تو اس راوی کے ثقہ ہونے میں شک نہیں رہ جاتاہے۔
    کتب رجال میں جن لوگوں نے اس کا ترجمہ ذکر کیا ہے انہوں نے امام عبدالرزاق کی یہ تعدیل ذکر نہیں کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی نگاہ اس پر نہیں پڑ سکی ، ورنہ یہ لوگ ان کے ترجمہ میں یہ تعدیل بھی ذکر کرتے اور انہیں مجہول نہیں کہتے ۔
    بلکہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے گرچہ تقریب میں اسے مجہول کہا ہے لیکن جب ان کے سامنے مسند احمد کی مذکورہ روایت آئی جس میں امام عبدالرزاق نے عمربن حوشب کی تعدیل کی ہے ، تو انہوں نے اس سند میں ’’رجل من ہذیل ‘‘یعنی ہذلی شخص کے علاوہ باقی سند کے سارے رجال کو ثقہ کہہ دیا ، چنانچہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے کہا:
    ’’ورجاله ثقات إلا الهذلي فإنه لم يسم ‘‘
    ’’اس کے رجال ثقہ ہیں سوائے ھذلی کے کیونکہ اس کا نام مذکور نہیں‘‘
    [الإصابۃ لابن حجر:۸؍۲۲۰]
    امام ہیثمی رحمہ اللہ (المتوفی۸۰۷)نے بھی مسند احمد والی اس حدیث میں ھذلی کے علاوہ باقی سارے رجال کو ثقہ قرار دیا، چنانچہ کہا:
    ’’رواه أحمد والهذلي لم أعرفه، وبقية رجاله ثقات ‘‘
    ’’اسے احمد نے روایت کیا ہے ، ھذلی کو میں جان نہیں سکا اور اس کے بقیہ رجال ثقہ ہیں‘‘
    [مجمع الزوائد للہیثمی: ۸؍۱۸]
    معلوم ہواکہ اس راوی کو امام عبدالرزاق ، امام ابن حبان ،حافظ ابن حجر اور امام ہیثمی رحمہم اللہ نے ثقہ کہا ہے اور اس پر ایک حرف کی بھی جرح موجود نہیں ہے لہٰذا یہ راوی ثقہ ہے ۔
    علامہ البانی رحمہ اللہ نے امام عبدالرزاق کی تعدیل کے سبب اسے ثقہ قرار دیتے ہوئے کہا:
    ’’وهذا إسناد رجاله ثقات إلا الرجل المبهم، ولم يسم ‘‘
    ’’اس سند کے سارے رجال ثقہ ہیں سوائے مبہم شخص کے کیونکہ اس کا نام مذکور نہیں ہے‘‘
    [جلباب المرأۃ المسلمۃ :ص :۱۴۲]
    اور جن لوگوں نے اسے مجہول کہا ان پر رد کرتے ہوئے علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’فإن الحكم عليه بالجهالة لا يتمشي مع تصريح عبد الرزاق بأنه رجل صالح ؛ فإن من علم حجة على من لم يعلم، ومن الظاهر أن الذى ترجموه لم يقفوا على تصريحه هذا، وإلا لنقلوه ‘‘
    ’’اس پر جہالت کا حکم لگانے والی بات چل نہیں سکتی کیونکہ امام عبدالرزاق نے صراحت کردی ہے کہ یہ نیک آدمی ہے ، اور جس کے پاس علم ہے وہ حجت ہے اس پر جس کے پاس علم نہیں ہے ، اور ظاہر یہی ہے کہ جن لوگوں نے اس کا ترجمہ لکھا ہے وہ لوگ امام عبدالرزاق کی اس صراحت پر آگاہ نہیں ہوسکے ورنہ اسے بھی نقل کرتے ‘‘
    [جلباب المرأۃ المسلمۃ :ص:۱۴۴]
    اس تفصیل سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ راوی ثقہ ہے اور ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صحیح مسلم کی اس حدیث کو طاؤس سے صرف ابن طاؤس ہی نے نہیں بلکہ عمرو بن دینار نے بھی نقل کیا ہے۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings