-
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکے نکاح اور رخصتی کی عمر (قسط ثانی) دیگر مضامین,Latest magazine,اہم مضامین,ستمبر 2022,مولانا عبد الرحمن مئوی اعظمی ۔و مولانا ابوالقاسم قدسی,منتخب مضامیندوسرا سوال اور اس کا جواب:
دوسرا سوال جو اس موقع پر کیا جاتا ہے کہ ۹؍برس کی لڑکی صحیح معنی میں دلہن بننے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی۔ اس سوال کا جواب خود واقعات دینے کوتیار ہیں۔ اگر کسی کی نظر ہی وسیع نہ ہو تو اس کا کیا علاج ہے۔ ہم نے خود اپنے اس زمانہ میں بعض واقعات اس قسم کے سنے ہیں کہ فلاں مقام پر اس عمرکی کمسن لڑکی حاملہ پائی گئی یا اس کو وضع حمل ہوا ہے۔ اخبارات میں بھی ایسے واقعات شائع ہوتے رہتے ہیں۔مگر ہم اس موقع پر ائمہ اسلام کی شہادت پیش کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے یہ لکھا ہے کہ اس سن کی عورتیں حاملہ یا ذات الولد پائی گئیں ۔چنانچہ دارقطنی جو حدیث کی مشہور کتاب ہے اس میں عباد بن عباد المھلبی کا بیان مذکور ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’أدركت فينا يعني المهالبة امرأة صارت جدة وهى بنت ثمان عشرة سنة ولد لتسع سنين ابنة فولدت ابنتها لتسع سنين فصارت هي جدة وهى بنت ثماني عشره سنة ‘‘
’’میں نے اپنی قوم مہالبہ میں ایک عورت کو دیکھا کہ وہ اٹھارہ برس کی عمر میں نانی بن گئی تھی۔ اس کی صورت یہ ہوئی کہ خود اس کو ۹؍برس کی عمر میں لڑکی پیدا ہوئی او رپھر وہ لڑکی ۱۸؍برس میں لڑکے والی ہوگئی اور اس طرح سے ۱۸؍برس میں نانی بن گئی‘‘
[سنن الدار قطنی:ج:۴،ح:۸۱ ۳۸]
اصل یہ ہے کہ لڑکے لڑکیوں کا شباب و بلوغ صرف عمر ہی پر موقوف نہیں۔ زیادہ تر ملکی آب و ہوا اور جسمانی نشوونما کا بھی اس میں بہت کچھ دخل ہے، ایک ہی ملک کے قوی الاعضاء اور نحیف الاعضاء میں چار چار، چھ چھ برس کافرق پڑ جاتا ہے حتیٰ کہ بعض اوقات چھوٹا لڑکا یا لڑکی بلوغ کوپہنچ جاتے ہیں اور بڑے ابھی برسوں پڑے رہ جاتے ہیں،امام شافعی جو ائمہ اربعہ میں جلیل القدر امام ہیں ، آپ کا چشم دید واقعہ نقل کیا جاتاہے :
’’أنه ر أى جدة بنت إحدي عشرين سنة وإنها حاضت لاستكمال تسع ووضعت بنتها لاستكمال عشر ووقع ببنتها مثل ذلك‘‘
’’آپ نے دیکھا کہ ایک عورت اکیس برس کی عمر میں نانی بن گئی۔ اس کی صورت یوں ہوئی کہ نویں برس میں حیض آیا، دسویں برس میں لڑکی جنی اور اس لڑکی کا حیض و حمل بھی اسی طرح وقوع پذیر ہوا جس سے اکیس برس کی عمر میں نانی کہلانے لگی‘‘
[فتح الباری :ج:۴،ص:۲۷۷ ]
اسی طرح صحیح بخاری میں بھی حسن بن صالح کے ذریعہ ایک واقعہ مذکور ہے، ان کابیان ہے کہ:
’’كنت أدركت جارة لنا جدة بنت إحديٰ و عشرين‘‘
’’میں نے اپنے پڑوس کی لڑکی کو دیکھا کہ وہ اکیس برس کی عمر میں نانی ہوگئی تھی‘‘
[صحیح البخاری :ج:۳، ص:۱۷۷،باب بلوغ الصبیان وشھادتھم]
ان واقعات اورحالات کے معلوم کرلینے کے بعد غالباً اس عمر میں عورت کے بلوغ میں کسی کو شبہ نہیں ہوسکتا، ہاں یہ ہمیں بھی تسلیم ہے کہ علی العموم اس سن میں بہت کم عورتیں بالغ پائی جاتی ہیں مگر اس سے یکدم نفی کا ثبوت کیونکر ہوسکتا ہے اور خاص کر ایسی لڑکی کی نسبت جس کی جسمانی اور روحانی نشوونما کا کمال سب پر ظاہر ہو۔
ہاں ممکن ہے کہ کسی کو اس واقعہ سے شبہ پڑے کہ آپ کی کم سنی اور جھولا وغیرہ کا ذکر آ پ کے بلوغ کو تسلیم کرنے سے مانع ہے تو اس کے جواب میں آپ کی توجہ عہد رفتہ کی طرف منعطف کرنے کا مشورہ دیں گے اور اس زمانہ کی سادگی اور معاشرتی حالات کی طرف غائر نظر ڈالنے کی رائے دیں گے، جس سے تمام شکوک رفع ہوجائیں گے۔
تیسرا سوال اور اس کا جواب:
اس موقع پر تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اور لڑکی اس سے زیادہ سن کی آپ کو نہیں مل سکتی تھی؟ اس کے جواب میں گزارش ہے کہ ہاں ضرور مل سکتی تھی لیکن وہ فضل و کمال جو آپ کے شامل حال تھا، وہ کیونکر کسی او ر میں مل سکتا تھا۔ آپ کو معلوم ہے کہ اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ اور بھی بیویاں آنحضرت کی عقد میں تھیں لیکن کوئی بیوی بھی آپ کے ہم پلہ نہیں ہوئی ۔ ہم نے جو اوپر آپ کے حالات میں ائمہ کرام کے کلمات کو پیش کیا ہے اس سے ہر شخص آ پ کی قابلیت کا بآسانی اندازہ لگا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ بھی مسلمہ امر ہے کہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نہ صرف اہل اسلام میں معزز و محترم تسلیم کیے جاتے تھے بلکہ کفارِ عرب نے بھی ہمیشہ آپ کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھا۔ چنانچہ آپ کا یہ واقعہ صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ آپ نے اپنی قوم سے تنگ آکر جب حبشہ کی طرف اوّل اوّل ہجرت کرنا چاہا تھا اور اس قصد سے آپ مکان سے نکل چکے تھے تو راستہ میں ابن دغنہ سردارِ قبیلہ آپ سے ملا۔ اوراسے جب یہ معلوم ہوا کہ آپ ترکِ وطن کرکے اور جگہ جانا چاہتے ہیں تو وہ آپ کو راستہ سے واپس لایا اور کہا کہ آپ جیسا شخص بھی قوم سے الگ کیا جاسکتا ہے۔
مقامِ غور ہے کہ کفارِ عرب جودین اسلام کے سخت ترین دشمن اور مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے ایسی حالت میں ایک ایسے شخص کو جو اسلام کا سخت فدائی اور دین کا کامل جاں نثار ہے ، اس کو ان کی قوم کا سردار راستہ سے واپس بلا رہا ہے۔ کوئی شخص اس واقعہ سے بخوبی اندازہ کرسکتا ہے کہ عرب میں آپ کس شان و شوکت اور عزت و وقار کے مالک تھے۔اس سے یہ واضح ہے کہ عرب میں آپ کی شخصیت ایک بے نظیر شخصیت تھی اور مذہب ِاسلام میں تو اہل حق کا اس امر پرکامل اتفاق ہی ہے کہ:
’’إن أفضل الناس بعد الأنبياء بالتحقيق أبوبكر الصديق‘‘
’’یقینا انبیاء کے بعد تمام انسانوں سے افضل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں‘‘
ایسے عظیم الشان اور معززخاندان کی لڑکی جو خاندانی شرافت کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے جسمانی اور روحانی محاسن سے بھی مالا مال ہو۔ کیا ایسی معزز خاتون بجز نبی کے کسی اور کے لائق ہوسکتی تھی۔ اور کیا کوئی دوسری لڑکی ا ن تبلیغی فرائض کی انجام دہی کر سکتی تھی۔
اس کے علاوہ ایک نہایت اہم مصلحت یہ بھی تھی کہ دنیا آگے چل کر یہ نہ کہہ سکے کہ ایسا اولوالعزم نبی باوجود متعدد نکاح و بیاہ کے کسی باکرہ لڑکی سے ہم آغوش نہ ہوسکا۔ جیسا کہ کفارِ عرب نے آپ کے سامنے آپ کے چچا ابوطالب کی معرفت آپ کو راہ حق سے روکنے کے لیے آخری تدبیر پیش کرتے ہوئے کہا :
آپ اگر حکومت چاہتے ہیں تو ہم آپ کو اپنا سردار تسلیم کرنے کو تیار ہیں، مگر آپ ہمارے مذہب کی تردید سے باز آجائیں۔
اگر آپ مال چاہتے ہوں تو ہم تمام قبائل آپ کے لیے اس کا انتظام کردیں گے۔ مگر آپ ہمارے مذہب کی توہین نہ کریں۔
اگر آپ ہماری لڑکیوں میں سے کسی لڑکی کو چاہتے ہیں تو آپ کو اختیار دیتے ہیں کہ اَعیانِ قریش کے خاندان سے بہتر سے بہتر لڑکی منتخب کرسکتے ہیں، مگر ہمارے مذہب کی مخالفت نہ کریں۔
یہ وہ چیزیں تھیں جو آپ کو مذہب ِاسلام سے روکنے کے لیے آپ کے سامنے پیش کی گئی تھیں۔ مگر آپ نے اس کے جواب میں جوچچا سے عرض کیا ہے، وہ تمام دنیا کے لیے مقامِ فکر ہے ، فرمایا:
اے چچا ! اگر میری قوم میرے ایک ہاتھ پرآفتاب (سورج)اور دوسرے پر ماہتاب(چاند) رکھ دے تو پھر بھی میں اَحکامِ الٰہی کی تبلیغ سے باز نہیں آسکتا۔
آپ کی اس ثبات قدمی اور اولوالعزمی کے صلہ میں اللہ نے دولت ِحکومت کے ساتھ عرب کے بہترین سردار کی قابل ترین لڑکی کو بھی آ پ کے عقد میں عطا فرمایا جس سے درج ذیل مصالح کی تکمیل باحسن وجوہ عمل میں آئی:
(۱) مسلم خواتین کی اہم اور ضروری مصلحتیں آپ کے ذریعہ انجام پذیر ہوئیں۔
(۲) آپ نے صنف ِنازک میں اس امر کا حوصلہ بتلایا کہ ایک لڑکی عقل و شعور سے کام لے اور محنت کرے تو علم وفضل میں نمایاں مرتبہ پاسکتی ہے۔
(۳) نبی جس طرح اُخروی نعمتوں سے سرفراز ہوگا، دنیا بھی اس کی خواہش اورارادہ سے زیادہ، اس کی خدمت کے لیے موجود تھی۔
(۴) آپ کی عزت و شرافت کا معیار اس قدر اعلیٰ اور اہم تھا کہ عرب کا بڑے سے بڑا سردار اپنی کمسن بچی کو آپ کے عقد میں دے دینا بھی اپنے لئے باعث ِفخر سمجھتا تھا۔
(۵) دنیا سے بے رغبتی آپ کی کسی مجبوری ؍عاجزی پر منحصر نہ تھی بلکہ آپ کا زہد و تقدس آپ کو دنیا سے دور رکھے ہوئے تھا۔ ورنہ دنیا آپ کی تمام خواہشات کے لئے آپ کے قدم مبارک پر سرنگوں تھی۔
مزید شُبہات:
متفق علیہ احادیث کی تکذیب کوئی معمولی گناہ نہیں ہے۔ انہی پر اسلام اور قرآنی احکام کا دارومدار ہے۔ اگر ایسی ہی درایت سے آج روایتوں کی تکذیب ہونے لگے تو کل قرآن مجید بھی اسی نام نہاد درایت کے قربان گاہ پرچڑھ جائے گا اور ساری دنیائے اسلام میں الحاد و نیچریت کا نقارہ بجنے لگے گا اور ہمارے اسلام کے پیچھے پڑی ہوئی قوم خود ہمارے ہاتھوں کامیاب ہوجائے گی۔
ہرچند کہ اس کے بعد کچھ بھی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ اس کے متعلق کچھ مزیدلکھا جائے مگر چونکہ مضمون نگار حضرات نے اس خلافِ واقعہ تحقیق پر اعتماد رکھتے ہوئے کچھ اور دلائل عقلیہ بھی لکھے ہیں جو بناء فاسد علی الفاسد ہونے کے علاوہ احادیث سے حددرجہ بدگمان کرنے والے ہیں۔ لہٰذا ان کی مزعومہ درایت پر بھی نظر ڈال لینا مناسب سمجھتے ہیں اور ان کے دلائل کاذکر کرتے ہوئے ساتھ ساتھ جواب بھی لکھتے ہیں :
مدعی کی پہلی دلیل اور اس پر تنقید:
حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہاکی وفات سے حضور ﷺکو تبلیغی تکلیفات کے علاوہ گھر کی ویرانی کی زیادہ تکلیف دہ تھی۔ خانہ داری کا انتظام تتر بتر ہورہا تھا اور گھر میں بال بچوں کا سنبھالنے والا کوئی نہیں تھا۔ ایسے حالات میں ضروری تھا کہ گھر کے انتظام کے لیے ایک قابل جوان عورت ہو نہ کہ۶؍ برس کی بچی عائشہ رضی اللہ عنہاکا نکاح جواکثر راویوں کے نزدیک حضرت سودہ رضی اللہ عنہاسے پہلے ہوا، اور بالفرض اگر یہی سچ ہو کہ سودہ رضی اللہ عنہاہی کا پہلے نکاح ہوا تو وہ بے چاری بوڑھی، بھاری بھرکم تھیں جن کا ہلنا جلنا بھی مشکل تھا گھر کا کام کیا کرسکتی تھیں۔
اس کے جواب میں عرض ہے کہ بلاشبہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہااور ابوطالب کی وفات سے آپ کی اندرونی وبیرونی مشکلات میں اضافہ ہوگیاتھا اور خانہ داری کے انتظام کے لئے ایک قابل عورت کی بروقت ضرورت بھی تھی۔ لیکن اس کا ثبوت آپ کے ذمہ ہے کہ بوقت ِضرورت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاخانہ آباد بھی ہوگئی تھیں حالانکہ آپ خود پہلے لکھ چکے ہیں کہ ہجرت سے پہلے مکہ میں نکاح ہوا اور ہجرت کے دو سال بعد مدینہ میں رسول اللہ کے گھر میں آباد ہوئیں۔ پس آپ ہی بتلائیں کہ انتظام کی ضرورت تو بروقت مکہ میں ہو اور منتظمہ دو سال کے بعد گھر میں قدم رکھے۔ وہ بھی مکہ کے بجائے مدینہ میں۔پھر تو ویران گھر ویران ہی رہا یا آباد ہوگیا۔ اب آپ حضرات کی وہ خانہ آبادی والی مصلحت اور بال بچوں کی نگرانی کی ضرورت کہاں گئی اور بالخصوص اس صورت میں کہ آپ حضرات نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کوحضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے قبل گھر میں آنا ہی ممنوع قرار دے رکھا ہے جو خلاف ِتحقیق کے ساتھ ساتھ عقل کے بھی خلاف ہے۔
اصل یہ ہے کہ:
اوّلاً : تو حضورﷺکے گھر کا انتظام کوئی بڑا بھاری انتظام نہیں تھا اور نہ زیادہ بال بچے۔ ایک حضرت فاطمہ کبریٰ جو بقول آپ کے ۱۵؍۱۶ برس کی تھیں۔
ثانیاً: جو کچھ بھی ہو انتظام کے لیے اور با ل بچوں کی نگرانی کی خاطر سن رسیدہ تجربہ کار عورت کی ضرورت ہواکرتی ہے جس کو سب جانتے ہیں اور اس کے لیے حضرت سودہ بروقت کافی ہوگئیں۔انہی سے پہلے نکاح بھی ہوااور یہی پہلے آباد بھی ہوئیں۔ طبقات ابن سعد صفحہ ۳۷ میں ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکی وفات کے بعد آپ کے پاس حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی بیوی خولہ رضی اللہ عنہا آئیں اور کہا کہ آپﷺ کو خدیجہ رضی اللہ عنہاکی وفات سے بہت صدمہ ہوا۔ آپ نے فرمایا:
’’أجل کانت أمّ العیال وربۃ البیت‘‘’’ ہاں وہ بچوں کی ماں اور گھر کی منتظمہ تھیں اور اب کوئی نہیں‘‘
تب خولہ رضی اللہ عنہانے حضرت سودہ رضی اللہ عنہاکے تجربہ کاری اور سن رسیدگی کا تذکرہ کرکے اجازت مانگی کہ اگر حکم ہو تو میں درمیان میں پڑوں۔ چونکہ آپ کو سردست ایسی ہی اہل بیت کی ضرورت تھی، آپ نے اجازت دی۔ بات پختہ ہوگئی، نکاح ہوا اور مکہ ہی میں خانہ آباد ہوگئیں۔
اس کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی طرف خیال کیا گیا، اس لئے کہ آپ کو ازغیب بشارت ہوچکی تھی۔چنانچہ آپ نے پیغام دیا اور اس وقت آپ کی عمر ۶؍برس کامل ہو کرساتویں برس میں داخل ہوچکی تھی (اسی وجہ سے آپ کی عمر کی بابت چھ برس اور کہیں سات برس کا ذکر آتا ہے) نہ اس وجہ سے کہ آپ سے گھر کا کام چلے گا بلکہ محض مبشر من اللہ ہونے کی وجہ سے۔
[کذا فی الطبقات والا ستیعاب]
اس نکاح سے بشارتِ ربانی حاصل کرنامطلوب تھا، نہ کہ خانہ آبادی۔ ہاں جن سے کام چلنے والا تھا، وہ خانہ آباد ہوگئیں یعنی حضرت سودہ رضی اللہ عنہا اور روایتہ یہی صحیح ہے ۔
بالفرض حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کے ساتھ پہلے نکاح ہونا مان لیاجائے اور وہ بھی بقول آپ کے زیادہ سے زیادہ سولہ برس کی عمر میں تو اس سے حضور ﷺکا کیا کام چلا۔ کیونکہ ان سے تو گھر آباد ہوا مدینہ میں اور بروقت ضرورت تھی مکہ میں۔ پس ان سے پہلے نکاح ہوا تو کیا، نہ ہوا توکیا؟اس کی عمر میں یا اس کی شادی میں!فافھم۔
باقی آپ کے یہ الفاظ کہ وہ بے چاری بڑھیا بھاری بھر کم جن کے لیے ہلنا جلنا بھی مشکل تھا، بھلا گھر کا کام کیا کر سکتی، خلاف تہذیب ہونے کے علاوہ کسی قدر خلافِ واقعہ ہے۔ کیانعوذ باللہ وہ اپاہج تھیں یا گھر میں کدال چلانی تھی۔ کیا آپ ﷺ کی دل دہی، گھر کے معمولی انتظام اور بچوں کی دیکھ بھال سے بھی قاصر تھیں۔ پھر تو آپ ﷺ نے ان سے نکاح کرکے اپنی مشکلات میں ایک اور مشکل کا اضافہ کرلیا۔
دوسری دلیل اور اس پر تنقید:
کتابوں میں لکھا ہے کہ بعض مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہامیں مقابلہ کی گفتگو ہوجایا کرتی اور یہ صرف ہم عمروں میں ہی ہوا کرتی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ عائشہ کی عمر ہجرت کے وقت ضرور سترہ سال ہوگی۔
اس کے متعلق سوائے اس کے کہ آپ کے قوتِ استدلالیہ کی تعریف کروں اور کیا عرض کروں۔
اولاً : تو حضرت فاطمۃ الزہرا بحکم فاطمۃ بضعۃ منی بالکل اپنے بزرگوار باپ سید المرسلین رحمۃ للعالمین کی نمونہ تھیں، وہ مقابلہ کی گفتگو کیا جانیں۔
ثانیاً: بالفرض تسلیم کربھی لیا جائے تو ایسا ہونا لازمی نہیں۔
ثالثاً: اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہااور حضرت زینب رضی اللہ عنہادونوں میں گاہے بگاہے (نہ ہونے کے برابر) مقابلہ کی گفتگو ہوجایا کرتی تھی لہٰذا یہ دونوں بھی ہی ہم عمر ہوں واللازم باطل فاللزوم مثلہ۔
تیسری دلیل اور اس پرتنقید:
یہ ثابت ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہاکی منگنی جبیر بن مطعم کے بیٹے کے ساتھ ہوئی تھی مگر ان لوگوں نے منگنی توڑ دی کہ ان کے آنے سے ان کے گھر میں اسلام کا قدم آجائے گا۔ یہ ظاہر ہے کہ اسلام کی تبلیغ ہجرت کے سال سے پہلے ہوئی تھی اس لئے ضروری ہے کہ منگنی اس سے بھی پہلے ہوئی ہوگی ۔الخ
اوّلاً : یہ غلط ہے کہ جبیر بن مطعم کے بیٹے سے ہوئی بلکہ خود جبیر سے ہوئی تھی۔
ثانیاً: یہ بھی غلط ہے کہ مطعم بن عدی کی طرف سے منگنی توڑ دی گئی یہ اور بات ہے کہ ان لوگوں نے حمیت ِجاہلیت کی وجہ سے پہلو تہی برتی تھی مگر منگنی توڑی نہیں تھی،جیسا کہ محمد بن سعید( المتوفی۲۳۰ھ) طبقات ابن سعد میں رقمطراز ہے:
عن ابن عباس قال :’’خطب رسول اللّٰه إلى أبي بكر الصديق عائشة فقال أبوبكر يا رسول! قد كنت وعدت بها أو ذكرتها لمطعم بن عدي لابنه جبير فدعني حتي أسئلها منهم ففعل ثم تزوجها رسول اللّٰه‘‘
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :’’کہ نبیﷺ نے اپنے لیے ابو بکررضی اللہ عنہ کے پاس عائشہ رضی اللہ عنہا کا پیام ڈالا،ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا :یا رسولﷺ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہاکے بارے میں مطعم کو ان کے بیٹے جبیر کے لیے زبان دے دی ہے آپ مجھے عائشہ رضی اللہ عنہاکو ان سے ہٹا لینے دیں، آخرکار آپ نے ان سے درخواست کی کہ عائشہ رضی اللہ عنہاکا خیال چھوڑ دیں، مطعم نے یہ خیال ترک کر دیا پھر آپ سے نبیﷺ نے نکاح کر لیا ‘‘
[طبقات ابن سعد :۔ج۸ص۸۳،اردو ]
ثالثاً: کیا یہ ضروری ہے کہ سنِّ بلوغت سے پہلے منگنی ہوئی ہو۔ کیونکہ ان کو لڑکی لینی تھی، دینی نہیں تھی۔ البتہ یہ کہے کہ احکامِ نکاح کے نزول سے پہلے ہوئی ہوگی۔
چوتھی دلیل اور اس پرتنقید:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکے علمی اجتہادات کا زور وشور سے اعلان کیا جاتاہے بلکہ ان کو نصف دین مانا گیا ہے۔یہ کارنامے دس بارہ سال کے بچے سے نہیں ہوسکتے ۔الخ
اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ دنیا کے اندر بچوں کی نشوونما میں قدرت کے اَطوار مختلف ہیں۔ بعض بچے پیدا ہوتے ہی اپنے کمالِ سلامتی اعضاء او رہرے بھرے بدن اور قدوقامت کے لحاظ سے دیکھنے والوں کی نظر میں ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ دیکھتے ہی لوگ اس کو مہینوں کی عمر کا تجویز کرتے ہیں اور بعض ایسے نحیف ولاغر ہوتے ہیں کہ مہینوں کی عمر پربھی ایک ہفتہ کی عمر تجویز کرنے میں تامل کرتے ہیں۔ علیٰ ہذاالقیاس، عقل و ذکا اور فہم رسا میں بھی بعض بچے ایسے ہونہار و ممتاز نکل جاتے ہیں کہ صغرسنی ہی سے ان کے فہم و ادراک کی مثالیں ملنے لگتی ہیں۔ یہ سب تو قدرتی آثار ہیں۔ پھر اگر وہ مولود کسی امیر اور علمی خاندان کا ہو تو اس کی نشوونما اور ترقی علم و فہم کا کیا پوچھنا ہے۔ حضرت عائشہ اُمّ المومنین رضی اللہ عنہابھی اسی زمرہ کی ایک ممتاز فرد اور نمونۂ قدر ت تھیں۔ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی امارت اور فقاہت کوئی مخفی چیز نہیں ہے اور پھر حضور سیدالمرسلین ﷺاسے انتساب و ازواج و معیت و فیض صحبت سب پر بالا بلکہ سونے پر سہاگہ ہوگیا جس سے ان کے جوہر عقل و ذکا میں ایسی جلا آگئی اور عامہ و خاصہ تمام امور میں معاملہ فہمی کا ایسا ملکہ راسخہ حاصل ہوگیا کہ اکابر صحابہ کرام بھی ان کے محتاج ہوگئے اور بڑے بڑے مسائل شرعیہ وسیاسیہ ان سے حاصل کرنے لگے بلکہ فرائض جو نصف علم مانا گیا ہے، اکابر صحابہ اس کے مسائل اسی کم عمر فاضلہ صدیقہ سے دریافت فرمانے لگے ۔
’’قال مسروق والذي نفسي بيده لقد رأيت مشيخة أصحاب محمدالأكابر يسئلونها عن الفرائض ‘‘
’’میں نے آپﷺ کے بڑے بڑے جلیل القدر اصحاب رضی اللہ عنہم کو دیکھا کہ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرائض کے مسائل دریافت کیا کرتے تھے‘‘
[الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب :ج:۴،ص:۱۸۸۳]
قال عطاء:’’ كانت عائشة أفقه الناس وأعلم الناس وأحسن الناس رأيا فى العامة قال هشام ما رايت أحدا أعلم بفقه ولا بطب ولا بشعر من عائشة‘‘۔
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاتمام لوگوں میں زیادہ سمجھدار اور سب سے زیادہ علم والی اور عام طور پر نہایت پختہ رائے رکھنے والی تھیں۔میں نے کسی کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے زیادہ عالم نہیں پایا۔ فقہ، طب، شعر ان میں سے کسی ایک میں بھی کوئی ان کا ہم پلہ عالم نہ تھا‘‘
[الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب :ج:۴،ص:۱۸۸۳]
پانچویں دلیل اور اس پرتنقید:
رسول اللہ ﷺ کے تمام اقوال اُمت کے لئے نمونہ ہیں، اس واسطے آپ کی پیروی سب کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے سو یہ بات بھی ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺنے چھ برس کی بچی سے نکاح نہیں کیا۔
چھ برس کی بچی سے نکاح کرنا نہ عقلاً کوئی عیب ہے نہ شرعاً کوئی حرج :
’’أجمع المسلمون على جواز تزويجه بنته البكر الصغيرة لهذا الحديث ‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی حدیث کہ چھ برس کی عمر میں آپﷺ سے نکاح ہوا، سے تمام علماء نے اجماعی طور پر یہ مسئلہ نکالا ہے کہ باپ اپنی چھوٹی بچی کا نکاح اگر کردے تو جائز ہے۔
[شرح النووی علی مسلم:ج:۹،ص:۲۰۶، باب جواز التزویج الاب البکر الصغیرۃ ،ومرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح:ج:۵،ح:۳۱۲۹،ص:۲۰۶۱]
اسی طرح اس مسئلہ کا انکشاف تمام کتب ِفقہ میں بھی موجود ہے ۔
چھٹی دلیل اور اس پرتنقید:
یہ بات سب جانتے ہیں کہ ابتدا میں پیدائش کے وقت کوئی نہیں جانتا کہ مولود دنیا میں نامور ہوگا یا گمنام۔پھر دنیا میں رہ کر اپنی قابلیت سے نامور ہوجاتا ہے تو اس کا سن وفات اکثر صحیح اور پھر اس کی عمر کا حساب لگا کر سن پیدائش نکالا جاتاہے جو اکثر غلط ہوتا ہے ۔الخ
آپ کا مطلب ظاہر ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکا سن وفات جو ۵۸ھ کتابوں میں لکھا ہے، وہ تو صحیح ہے مگر سن پیدائش غلط ہے۔ اس بنا پر حدیثوں میں جو عندالنکاح چھ یا سات برس کی عمر مروی ہے، وہ بھی غلط ہے اور اکمال کی سند کا یقین کرتے ہوئے اپنی کوتاہ نظر اور قصور فہمی سے ۱۶؍برس کی عمر جو سمجھ لیاہے،بس وہی صحیح ہے باقی غلط۔ کیونکہ ا س کے بعد آخر میں بطورِ نتیجہ کے آپ لکھتے ہیں:
ہم لوگ خوش اعتقادی سے راویوں کی اس بات پر آمنا وصدقنا تو کہتے ہیں مگر دل میں یہ بات ضرور کھٹکتی رہی۔ سو خدا کا شکر ہے کہ وہ کھٹکا دور ہوگیا۔ اب ناظرین کو اختیار ہے کہ راویوں کی بات مانیں یا اکمال کی سند کا یقین کریں۔
اس کے متعلق ہم زیادہ کہنا نہیں چاہتے۔ ہمیں بھی اکمال کی سند کا یقین ہے۔ بس آپ مہربانی کرکے اکمال کے دونوں متعارض بیانوں کو ملا کر عندالنکاح سولہ برس کی عمر پر چسپاں کردیجیے۔ مگر یاد رکھیے کہ ایسا قیامت تک آپ نہ کرسکیں گے !
فإن كنت لا تدري فتلك مصيبة وإن كنت تدري فالمصيبة أعظم