-
تطہیر معاشرہ کے چند تدابیر اسلامی معاشرہ آج مختلف چیلینجز کے گھیرے میں ہے، متنوع مسائل سے یہ ایمانی معاشرہ جوجھ رہا ہے، مختلف امراض و اسقام سے دوچار ہے ، معاشرہ مکدر ونجس سا ہوگیا ہے ، غلاظت پڑگئی ہے، بے حیائی ،بے شرمی بے غیرتی ، بدکاری ،زنا ،لواطت ،مشت زنی ، ناجائز سری رشتے ، حرام شادی رچانا اور غلط طریقے سے ہوائے نفس کی آگ بجھانا ، وغیرہ وغیرہ، ہندوستان کے طول وعرض میں آج کل ارتداد کی لہر پھیلی ہوئی ہے ، مسلم لڑکیاں غیروں کے ساتھ بھاگ رہی ہیں اور اپنا دین چینج کررہی ہیں، مسلم نوجوان مرتد ہورہے ہیں ، ایسے میں والدین اور سرپرست کی ذمہ داری دوگنی ہوجاتی ہے ، ارتداد اور غیروں کے ساتھ بھاگ کر شادی رچانے کے چند اہم اسباب یہ ہیں : دین سے دوری، مسلمان لڑکیوں کا کافر لڑکوں کے ساتھ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا ، مسلم لڑکیوں کا نوکری چاکری کرنا ،فکری یلغاریں فلم ، میگزئین اور آرٹیکل وغیرہ کے ذریعہ کافر علاقوں میں رہائش اختیار کرنا ،لگژری زندگی گزارنے کی ہوس میں دوسرے مذہب کے لوگوں کی منظم سازشیں وکوششیں ،وغیرہ وغیرہ ۔
اب ذیل کے سطور میں تطہیر سوسائٹی ومعاشرے کی چند تدابیر وتجاویز پیش کی جا رہی ہیں ۔
۱۔ افراد معاشرہ کے اندر عقائد کی درستی کی جائے ، ایمان بالیوم الآخر ،حساب وکتاب، حشرا ورنشر کاسبق یاددلایا جائے،جہنم کاڈر پیدا کیا جائے اور اللہ کی پکڑ کاخوف دلایا جائے،کیونکہ خوف وخشیت ایمان کے شروط میں سے ہے، مزید یہ متقین عباداللہ کی صفات ہے۔
’’بل هي شرط من شروط الإيمان‘‘ قال تعالي: {فَاللّٰهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ}
[سورۃ التوبۃ:۱۳]
’’بلکہ یہ ایمان کی شرطوں میں سے ایک شرط ہے‘‘۔اللہ نے فرمایا :’’اللہ ہی زیادہ مستحق ہے کہ تم اس کا ڈر رکھو بشرطیکہ تم ایمان والے ہو ‘‘
والخشية خلق لا يتصف بها إلا عباد اللّٰه المتقين وأوليائه المحسنين: قال اللّٰه تعالي:{إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلٰي رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ}
[ سورۃ الأنفال:۲]
’’خشیت ایک ایسی صفت ہے جو اللہ کے متقی بندوںاور محسنین اولیاء کے ساتھ ہی متصف ہوتی ہے‘‘۔اللہ نے فرمایا : ’’بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کردیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں‘‘
قال الإمام الطبري رحمه اللّٰه:’’ ليس المؤمن بالذي يخالف اللّٰه ورسوله، ويترك إتباع ما أنزله إليه فى كتابه من حدوده وفرائضه، والانقياد لحكمه، ولكن المؤمن هو الذى إذا ذكر اللّٰه وَجِل قلبه، وانقاد لأمره، وخضع لذكره، خوفًا منه، وفَرَقًا من عقابه‘‘
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ مومن وہ نہیں ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی حکم عدولی کرتا ہے ،کتاب وسنت میں جو متعین حدود وفرائض ہیں ان کی اتباع نہیں کرتا اور ان کے حکم کے مطابق نہیں چلتا ۔ بلکہ مومن وہ ہے کہ جب اللہ کاذکر کیا جاتا ہے تو وہ کانپ اٹھتا ہے،ڈرجاتا ہے اور اس کے حکم پر چلنے لگتا ہے اور اس کو یاد کرنے لگتا ہے، اس سے خوف کھاکر اس کے عذاب سے ڈر کر ‘‘۔
[ تفسیر الطبری:۱۳؍۳۸۵]
قال تعالٰي :{اَللّٰهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُتَشَابِهًا مَثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَي ذِكْرِ اللّٰهِ ذَلِكَ هُدَي اللّٰهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَّشَائُ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ }
اللہ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی ہوئی آیتوں کی ہے، جس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں آخر میں ان کے جسم اور دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف نرم ہو جاتے ہیں، یہ ہے اللہ تعالیٰ کی ہدایت جس کے ذریعہ جسے چاہے راہِ راست پر لگا دیتا ہے۔ اور جسے اللہ تعالیٰ ہی راہ بھلا دے اس کا ہادی کوئی نہیں‘‘
[ سورۃ الزمر:۲۳]
محترم قارئین! دینِ اسلام معاشرہ کے ہر ہر فرد میں اللہ کا خوف وخشیت پیدا کرتا ہے، وہ انہیں ڈراتا ہے کہ اس کی قائم کی ہوئی حدود سے تجاوز نہ کریں، احکامِ الہٰی پر عمل کی صورت میں وہ روز قیامت اللہ کے انعامات ومکرّمات کی امید دلاتا ہے اور ان سے روگردانی کی صورت میں برے انجام سے دہشت دلاتا ہے، اگر معاشرے کے افراد کے دلوں میں اللہ کا خوف مستحضر رہے تو وہ بہت سی برائیوں سے دامن کش رہیں گے، حضرت یوسف علیہ السلام کو ایک منچلی خوبصورت اور بااقتدار عورت نے معصیت پر ابھارا، ان کے ہیجان کو برانگیختہ کرنا چاہا۔ دعوت تو تھی ہی ،بالکل اٹھتی ہوئی جوانی، غرض کہ معصیت میں گرفتار ہونے کے تمام اسباب متوفر تھے ،مگر یہی وہ برہان تھا جس نے انہیں اس معصیت سے دور رکھا اور وہ’’ معاذاللہ‘‘ پکار اٹھے ، انہوں نے قید وبند کی صعوبتیں جھیلنا گوارا کر لیا مگر اس دعوتِ معصیت پر لبیک نہیں کہا ۔
{قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِيٓ إِلَيْهِ وَإِلَّا تَصْرِفْ عَنِّي كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُن مِّنَ الْجَاهِلِيْنَ}
’’یوسف نے دعا کی کہ پروردگار جس کام کی طرف یہ مجھے بلاتی ہیں اس کی نسبت مجھے قید پسند ہے۔ اور اگر تو مجھ سے ان کے فریب کو نہ ہٹائے گا تو میں ان کی طرف مائل ہوجاؤں گا اور نادانوں میں داخل ہوجاؤں گا‘‘
[یوسف:۳۳]
ایک حدیث ہے کہ:
’’سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللّٰهُ يَومَ القِيَامَةِ فى ظِلِّهِ، يَومَ لا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ: إِمَامٌ عَادِلٌ، وَشَابٌّ نَشَأَ فِيْ عِبَادَةِ اللّٰهِ، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللّٰهَ فِيْ خَلَائٍ فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي الْمَسْجِدِ، وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اللّٰهِ، وَرَجُلٌ دَعَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ إلٰي نَفْسِهَا، قَالَ: إنِّي أَخَافُ اللّٰهَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فأخْفَاهَا حتّٰي لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ ما صَنَعَتْ يَمِيْنُهُ‘‘
نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے عرش کے نیچے سایہ دے گا جبکہ اس کے عرش کے سایہ کے سوا اور کوئی سایہ نہیں ہو گا۔ عادل حاکم، نوجوان جس نے اللہ کی عبادت میں جوانی پائی، ایسا شخص جس نے اللہ کو تنہائی میں یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے، وہ شخص جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے، وہ دوآدمی جو اللہ کے لیے محبت کرتے ہیں، وہ شخص جسے کسی بلند مرتبہ اور خوبصورت عورت نے اپنی طرف بلایا اور اس نے جواب دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور وہ شخص جس نے اتنا پوشیدہ صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چل سکا کہ دائیں نے کتنا اور کیا صدقہ کیا ہے‘‘
[صحیح البخاری:۶۸۰۶،صحیح مسلم:۱۰۳۱]
میدان حشر میں جب سورج لوگوں کے سروں پر ہوگا، لوگ نفسا نفسی کے عالم میں ہوں گے اور وہاں عرش الٰہی کے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا،سات قسم کے لوگ اس سایہ سے بہرہ ور ہوں گے، ان میں سے ایک آدمی وہ ہوگا جس کو جاہ واقتدار اور حسن وجمال کی مالک کسی عورت نے برائی پر اکسایا ہو مگر اس نے اللہ کے خوف سے اس دعوت کو رد کردیا ہو ۔
۲۔ ستر کی حفاظت
اسلام عریانی برہنگی اور ننگا پن کو سخت ناپسند کرتا ہے، وہ تو طہارت و نظافت کا حکم دیتا ہے، وہ ستر کی ترغیب دیتا ہے ۔ وہ مرد وعورت دونوں کو جسم کے وہ تمام حصے چھپانے کا حکم دیتا ہے جن میں ایک دوسرے کے لیے صنفی کشش پائی جاتی ہے، وہ اس معاملے میں اتنا حساس ہے کہ آدمی کا تنہائی میں بھی برہنہ رہنا وہ ناپسند کرتا ہے۔
عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللّٰهِ : ’’عَوْرَاتُنَا مَا نَأْتِي مِنْهَا وَمَا نَذَرُ؟ قَالَ احْفَظْ عَوْرَتَكَ إِلَّا مِنْ زَوْجَتِكَ أَوْ مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، إِذَا كَانَ الْقَوْمُ بَعْضُهُمْ فِي بَعْضٍ؟ قَالَ: إِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ لَا يَرَيَنَّهَا أَحَدٌ فَلَا يَرَيَنَّهَا قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ إِذَا كَانَ أَحَدُنَا خَالِيًا؟ قَالَ: اللّٰهُ أَحَقُّ أَنْ يُسْتَحْيَا مِنْهُ مِنَ النَّاسِ‘‘
حضرت بہز بن حکیم کے جد امجد روایت کرتے ہیں کہ:میں نے کہا اے اللہ کے رسول :’’ہم اپنی ستر پوشی کہاں کریں اورکہاں نہ کریں: آپﷺ نے فرمایا: اپنی شرم گاہ کو کسی کے سامنے نہ کھلنے دو ،سوائے اپنی بیوی اور باندی کے،میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ !جب لوگ باہم ملے جلے ہوں اور آدمی ستر پر پوری طرح قادر نہ ہو تو کیا کرے؟فرمایا :جہاں تک ممکن ہوکوشش کرو کہ کوئی شخص تمہارے قابل ستر مقامات کودیکھنے نہ پائے، میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! جب کوئی شخص تنہا ہو تو کیا کوئی شخص اس وقت بھی برہنہ نہیں ہوسکتا؟ آپ نے جواب دیا اللہ تعالیٰ اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے شرم کی جائے‘‘ ۔
[سنن ابی داؤد: ۴۰۱۷،حسن]
اسی معنیٰ کی ایک دوسری حدیث پر بھی غور فرمائیں:
عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، قَالَ:’’ دَخَلَ نِسْوَةٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ عَلٰي عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا، فَقَالَتْ: مِمَّنْ أَنْتُنَّ قُلْنَ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ قَالَتْ: لَعَلَّكُنَّ مِنَ الْكُورَةِ الَّتِي تَدْخُلُ نِسَاؤُهَا الْحَمَّامَاتِ قُلْنَ: نَعَمْ قَالَتْ: أَمَا إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَا مِنَ امْرَأَةٍ تَخْلَعُ ثِيَابَهَا فِي غَيْرِ بَيْتِهَا إِلَّا هَتَكَتْ، مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللّٰهِ تَعَالٰي‘‘
ابوالملیح کہتے ہیں :’’اہل شام کی کچھ عورتیں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئیں تو انہوں نے ان سے پوچھا: تم کہاں کی ہو؟ ان سب نے کہا: ہم اہل شام سے تعلق رکھتی ہیں، یہ سن کر وہ بولیں: شاید تم اس علاقہ کی ہو جہاں کی عورتیں بھی غسل خانوں میں داخل ہوتی ہیں، ان سب نے کہا: ہاں، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: سنو! میں نے رسول اللہﷺکو فرماتے سنا ہے: جو بھی عورت اپنے کپڑے اپنے گھر کے علاوہ کہیں اور اتارتی ہے تو وہ اپنے پردے کو جو اس کے اور اللہ کے درمیان ہے پھاڑ دیتی ہے‘‘
[سنن ابی داؤد: ۴۰۱۰،صحیح،سنن الترمذی: ۲۸۰۳، سنن ابن ماجہ:۳۷۵۰]
اعضاء ستر کا چھپانا یہ انسان کی فطرت وجبلت میں داخل ہے اور اس کو ننگا نا کرنا اس کی سرشت ہے، جبکہ شیطان رجیم کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ مرد وعورت زیادہ عریاں ہوکر ایک دوسرے کے سامنے آئیں، اسی ابلیس نے جب فریب ودجل دے کر اور بہکا کر حضرت آدم وحوا کو ایک مخصوص قسم کا پھل کھانے پر مجبور کر دیا اورانہوں نے پھل کھا لیا اور ان کے اعضاء ستر کھل گئے تو اسی فطری جذبہ کے تحت انہوں نے جنت کے پتوں سے ان اعضاء کو ڈھکنے کی کوشش کی تھی۔
{فَدَلَّاهُمَا بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُلْ لَكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُبِينٌ}
’’غرض (مردود نے) دھوکہ دے کر ان کو (معصیت کی طرف)کھینچ ہی لیا جب انہوں نے اس درخت (کے پھل) کو کھا لیا تو ان کی ستر کی چیزیں کھل گئیں اور وہ بہشت کے (درختوں کے) پتے توڑ توڑ کر اپنے اوپر چپکانے لگے اور (ستر چھپانے لگے) تب ان کے پروردگار نے ان کو پکارا کہ کیا میں نے تم کو اس درخت (کے پاس جانے) سے منع نہیں کیا تھا اور جتا نہیں دیا تھا کہ شیطان تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے‘‘
[سورۃالأعراف:۲۲]
آج فیشن اور نیو ماڈل کے نام پر عریاں کپڑے ، ننگے لباس دکانوں کی زینت بنے ہوئے ہیں ، اور ان کپڑوں کو خریدنے میں انسان سبقت کررہا ہے، آج لڑکیاں ایسے کپڑوں کا استعمال کررہی ہے کہ جس سے جسم کے نشیب وفراز ایک کیلو میٹر دور سے ہی جوانوں کو دعوت نظارہ دے رہی ہیں، افسوس کا مقام ہے کہ تجدد کے نام پر اور فرسودہ خیال ودقیانوسی کا طعنہ دے کر مسلمانوں کو یرغمال کررہے ہیں ، اور چپکے سے مع عیاری کے اپنی دکان چمکا رہے ہیں، لیکن یہ بات سلیقے سے بھی سمجھاؤ تو انہیں سمجھ میں نہیں آتی، ان کٹے پھٹے نصف کھلے ہوئے کپڑوں کے استعمال کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے بدکاری اور زناکاری کے فروغ میں۔
۳۔ تجرد کا خاتمہ اور نکاح میں جلدی
اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ معاشرہ کا کوئی بھی فرد جہاں تک ممکن ہو غیر شادی شدہ نہ رہے ،تاکہ وہ جنسی تسکین کے لیے کوئی غیر شرعی وحرام وناجائز طریقے اختیار کرنے پر مجبور نہ ہو ، وہ سرپرستوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنے زیر دستوں کے نکاح کا اہتمام کریں۔
{وَأَنْكِحُوا الْأَيَامٰي مِنْكُمْ وَالصَّالِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَائَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ}
’’تم میں سے جو مرد عورت بین نکاح کے ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غلام اور لونڈیوں کا بھی۔ اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا۔ اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے‘‘
[النور:۳۲]
محترم قارئین! یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھئے کہ شادی کے فوائد بہت ہیں، یہ معاشرہ کی تطہیر کا بڑا سبب ہے، شادی جسمانی،نفسیاتی ،معاشی ،قومی وملی اوردینی تقاضا ہیں ، شادی کے بغیر انسان کا ایمان وتقویٰ مکمل نہیں ہوسکتا ہے، آج معاشرہ میں زنا وبدکاری کی جو آگ لگی ہوئی ہے وہ دراصل جوانوں کی شادی کرنے یا کرانے میں تاخیر کی وجہ سے ہے، عمر کے اس مرحلے یا حصے میں نکاح کے بغیر سکون واطمینان کا تصور ہی نہیں، آج نوجوان پریشان ہیں، بہت سارے نوجوان مشت زنی جیسی قبیح حرکت میں ملوث ہیں۔
ہمارے گاؤں ،گھراور سماج وسوسائٹی میں جو رسم ہے کہ پچیس کے عمر سے پہلے شادی نہیں کرائیں گے، یا بہن کی موجودگی میں بھائی کی شادی کیسے کرائیں یہ رسم انتہائی غلط ہے،بلکہ جوانوں پر ظلم ہے، ہداہم اللّٰہ جمیعا۔
محترم قارئین! ہر کس وناکس بنیادی طور پر تین طرح کی خواہشات رکھتا ہے، کھانے کی خواہش، پینے کی خواہش ، اور جنس ( sex)کی خواہش،کوئی بھی انسان ہو چاہے وہ دہریہ ہو ،عِلمانیہ ،وجودیہ ،وضعیہ ،شیوعیہ ،دارونیہ ،سمنیہ ، یا طبائعون ، یا سیکولر یا اس کا کسی مذہب سے تعلق ہو بحیثیت انسان اس کے اندر ان فطری خواہشات کا پایا جانا لازمی ہے، جنس کے تعلق سے مختلف روئیے اختیار کئے گئے ہیں، کچھ لوگوں نے جنسی خواہش کو دبانے اور کچلنے کی کوشش کی ہے، انہوں نے یہ تصور پیش کیا کہ جنسی خواہش کو دبا کر ہی انسان کی نجات ممکن ہے،تبھی اسے نروان حاصل ہوسکتا ہے اور وہ کامیابی کے مدارج طے کر سکتا ہے،یہ تصور عیسائیت میں راہبوں اور ہندومت میں جوگیوں کے یہاں ملتا ہے، چنانچہ انہوں نے جنسی تعلق کو ایک قابل نفرت چیز سمجھا اور شادی بیاہ کے بکھیڑوں میں پڑنے سے گریز کیا،انہوں نے جنگلوں اور بیابانوں کی راہ لی ،اور وہاں کٹیا بنا کر تنہائی کی زندگی گزارنے لگے ،اسی طرح ان مذاہب میں ان لوگوں کو عظمت کی نگاہ سے دیکھا گیا جو غیر شادی شدہ رہتے ہوئے پوری زندگی گزار دیں ،چنانچہ چرچوں اور مندروں میں اعلیٰ مناصب سے نوازا گیا،لیکن انسانی فطرت کو دبا کر اور بس سے جنگ کرکے زندگی گزارنا ممکن نہیں ہے،چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ چرچ سے وابستہ پادری اور مندروں کے پجاری بارہا بدکاری میں ملوث پائے گئے ہیں ، ابھی کچھ سال قبل اس طرح کے واقعات خود ہندوستان میں وقوع پذیر ہوچکے ہیں ، جن سے ان کے ان پاکیزہ مراکز کی پامالی ہوئی ہیں ، اس کے بالمقابل کچھ لوگوں نے جنس کے معاملے میں ہر طرح کی آزادی و حریت ’’اپنا جسم اپنی مرضی ‘‘ کی وکالت کی ہے،ان کا کہنا ہے کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے اس لیے اس کو یہ حق حاصل ہے کہ جس طرح چاہے اپنی جنسی خواہش پوری کر لے،خواہ اس کے لیے وہ کتنا ہی گھناؤنا وغیر فطری طریقہ کیوں نہ اختیار کرے،چنانچہ جنس کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا اور مرد کو مرد کے ذریعہ اور عورت کو عورت کے ذریعہ جنسی تسکین حاصل کرنے کا حق دیا گیا جن لوگوں نے یہ غیر فطری طریقہ نہیں اختیار کیاانہوں نے بھی نکاح کرنے اور خاندان تشکیل دینے کو فرسودہ قرار دیا، اور بہتری اس میں سمجھی کہ کوئی مرد اور عورت جب تک چاہیں ساتھ رہیں ،اور جب چاہیں الگ ہوکر اپنی اپنی راہ لیں ،کھلی چھوٹ دی گئی کہ وہ باہم رضامندی سے جب چاہیں جنسی تعلق قائم کر لیں ، صرف زور زبردستی کو قانوناً جرم قرار دیا گیا، یہ تصور پیش کیا گیا کہ ہر انسان اپنے جسم کا مالک ہے وہ اپنے جس عضو کو چاہے چھپائے اور جس کو چاہے کھلا رکھے،اس طرح اس کو یہ بھی اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے اعضائے جسم سے جیسا چاہے کام لے ،چنانچہ عورتوں کے رحم( uterus ) کرائے پر ملنے لگے کہ کوئی بھی مرد اس میں اپنا نطفہ داخل کرواکے بچہ حاصل کر سکتا ہے، اسی طرح مرد کے نطفے( sperm)کی بھی تجارت ہونے لگی اور اس کے بینک قائم ہوگئے ،ان چیزوں نے بہت بڑی انڈسٹری کی صورت اختیار کر لی،جس میں کروڑوں اربوں روپئے کا سرمایہ لگاہوا ہے، اس بے مہار آزادی نے انسانی سماج کو جانوروں کے باڑوں میں تبدیل کردیا ۔ واللہ المستعان
یہ سب زمینی حقائق ہیں، انہیں جاننا انتہائی ضروری ہے، آج مسلم امہ کو شادی کے معاملے میں انتہائی حساسیت کا مظاہرہ کرنا ہوگا ورنہ جوانوں کی جوانیاں برباد ہوکر زنا بالجبر ، لواطت،آتشک اور سوزاک وغیرہ جیسی بیماریاں انہیں جکڑ لیں گی ۔
۴۔ فحاشی کی عدم اشاعت :
اسلام اجتماعی ماحول کو اس حد تک پاک وصاف رکھنا چاہتا ہے کہ وہ یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ معاشرہ میں برے خیالات لوگوں کی زبانوں پر آئیںاور ان کی اشاعت ہو ،عہدِ جاہلیت میں شعراء اپنے کلام میں اپنے صنفی میلانات کو بیان کرتے تھے اور اسے بلا جھجھک بھری محفلوں میں پیش کرتے تھے، اسلام نے اس چیز کو سخت ناپسند کیا اور ایسا کرنے والوں کو وعید سنائی۔
{إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ}
’’جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزومند رہتے ہیں ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے‘‘
[النور:۱۹]
محترم قارئین : اسلام اس معاملے میں اتنا حساس ہے کہ وہ اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ بیوی اپنے شوہر کے سامنے کسی دوسری عورت کی صنفی خصوصیات کو بیان کرے یا شوہر دوسروں کے سامنے اپنی بیوی کے محاسن کو آشکارا کرے،اللہ کے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :
’’لَا تُبَاشِرُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، لِتَنْعَتَهَا لِزَوْجِهَا كَأَنَّمَا يَنْظُرُ إِلَيْهَا‘‘
’’ کوئی عورت کسی دوسری عورت کے ساتھ اس طرح نہ لپٹے کہ بعد میں وہ اپنے شوہر سے اس کے جسمانی محاسن کو اس طرح بیان کرنے لگے گویا وہ اسے دیکھ رہا ہے‘‘
[سنن ابی داؤد:۲۱۵۰،صحیح]
قیامت کے دن بدترین ٹھکانہ اس شخص کا ہوگا جو اپنی بیوی سے ہمبستری کرے پھر اس کے راز کو آشکارا کردے ۔
۵۔ حدود وتعزیرات کی تنفیذ
اسلام معاشرہ کی تطہیر کے لیے انتہائی تدبیر یہ اختیار کرتا ہے کہ جو لوگ اس میں آوارگی پھیلانے اور اس کی شفافیت کو گدلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،ان کے لیے وہ دردناک سزا تجویز کرتا ہے۔ مدینہ طیبہ میں منافقین وفاسقین اپنی بدطینی کی بنا پر فتنہ پردازی میں مشغول تھے، انہیں دھمکی دی گئی کہ اگر وہ اپنی اس روش بد سے باز نہ آئے تو اس کی سخت سزا سے دوچار ہوں گے ۔
{لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا}
’’اگر (اب بھی) یہ منافق اور وہ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور وہ لوگ جو مدینہ میں غلط افواہیں اڑانے والے ہیں باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان (کی تباہی) پر مسلط کردیں گے پھر تو وہ چند دن ہی آپ کے ساتھ اس (شہر) میں رہ سکیں گے‘‘
[الأحزاب :۶۰]
یعنی اگر منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں خرابی ہے اور وہ جو مدینہ منورہ میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے ہیں اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تمہیں کھڑا کردیں گے، پھر وہ اس شہر میں مشکل ہی سے تمہارے ساتھ رہ سکیں گے،ان پر ہر طرف سے لعنت کی بوچھار ہوگی ،جہاں کہیں پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے اور بری طرح مارے جائیں گے۔
جنسی تسکین کا جائز ذریعہ موجود ہونے کے باوجودجو شخص ناجائز ذرائع اختیار کرتا ہے، وہ اس قابل نہیں کہ کسی پاکیزہ معاشرے کا فرد بن کر رہ سکے ،اس لیے اسلام ایسے افراد کے لیے سخت سزا تجویز کرتا ہے اور ان ناپاک عناصر سے معاشرہ کو پاک کرنے کا حکم دیتا ہے۔
{الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللّٰهِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ}
’’زناکار عورت و مرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ۔ ان پر اللہ کی شریعت کی حد جاری کرتے ہوئے تمہیں ہرگز ترس نہ کھانا چاہیے، اگر تمہیں اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو۔ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہونی چاہیے‘‘
[النور:۲]
زانیہ عورت اور زانی مرد دونوں میں سے ہر ایک کو سوکوڑے مارو ،اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو ۔
یہ حکم غیر شادی شدہ کے لیے ہے،اگر کوئی شخص شادی کے بعد اس جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو اسلام میں اس کی سزا رجم ہے،یعنی ایسے مرد وعورت کو پتھر مار مار کر ہلاک کردیا جائے گا۔
اسلام کی نظر میں ایک شریف عورت کی عصمت اتنی محترم ہے کہ اگر کوئی شخص اس پر زنا کی جھوٹی تہمت لگاتا ہے تو وہ اسے بھی سخت سزا کا مستحق قرار دیتا ہے۔
{وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَائَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُوْنَ}
’’جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ پیش کرسکیں تو انہیں اسی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔ یہ فاسق لوگ ہیں‘‘
[النور:۴]
اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر تہمتیں لگائیں پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں تو ان کو اسّی کوڑے مارو اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو اور وہ خود ہی فاسق ہیں۔
۶۔ والدین کی ذمہ داری:
یہ فتنے کا دور ہے، چو طرفہ فتنہ وفساد کے تمام وسائل پھیلے ہوئے ہیں، موبائل ،انٹرنیٹ ،فیس بک، انسٹاگرام، اسنیپ چیٹ ، گوگل اوریوٹیوب کی مصیبتیں سر چڑھ کر بول رہی ہیں، چوری کے حادثات جب کثرت سے وقوع پذیر ہوتے ہیں تو سیکورٹی فورس میں اضافہ کر دیا جاتا ہے، نگرانی ومراقبہ کا عمل تیز تر ہوجاتا ہے اور ہمہ وقت چوکنا رہا جاتا ہے، لہٰذا اس زمانے میں آپ کو اپنے اولاد کی صرف دنیاوی ومادی فکر نہیں بلکہ اخروی فکر زیادہ کرنا ہوگا، آپ ہی معاشرے کو پاک صاف کریں گے، زناکاری اورلو میریج کے جتنے چور دروازے ہیں سب کو بند کرنا ہوگا، وقت پر شادی کرانی ہوں گی ، اس لیے کہ بھوک لگنے کے بعد بہت جلد بھوک کو مٹانے کے لیے طعام وشراب کی جستجو ہوتی ہے، چاہے بھوک حرام طریقے سے مٹائی جائے یا جائز اور ممدوح طریقے سے۔
اللہ تعالیٰ ہمارے معاشرے کو ظاہری وباطنی دونوں طریقہ سے پاکیزہ بنائے۔ آمین