-
کیا کسی وجہ سے فرض نماز چھوڑی یا اپنے متعینہ وقت سے موخر کی جا سکتی ہے؟ فاروق عبد اللہ نراین پوری(پی ایچ ڈی ریسرچر، شعبہ فقہ السنہ، کلیۃ الحدیث الشریف، جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ)
نماز ایک ایسی عبادت ہے جو کسی بھی حال میں معاف نہیں ہے، جب تک انسان ہوش وحواس میں ہے، پاگل نہیں ہو گیا ہے (اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے)نماز اس سے معاف نہیں، اگر کھڑے کھڑے نہیں پڑھ سکتاتو بیٹھے بیٹھے پڑھ لے، بیٹھے بیٹھے بھی نہیں پڑھ سکتاتو لیٹے لیٹے پڑھے، حرکت نہیں کر سکتا تواشارے سے پڑھ لے لیکن نماز نہیں چھوڑ سکتا۔
اسی طرح اسے وقت کے اندر ادا کرنا ضروری ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا}
’’بے شک نماز مومنوں پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے‘‘
[النساء:۱۰۳]
گرچہ میدان جہاد میں ہو، نماز معاف نہیں ہے۔
اگر کسی حالت میں نماز معاف ہو سکتی تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت سے پہلے جو حالت تھی اس حالت میں ان سے نماز معاف ہو جاتی، لیکن انہوں نے اس حالت میں بھی نماز ادا کی، بلکہ آپ نے فرمایا کہ جس نے نماز چھوڑ دی اس کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
جب تک انسان ہوش وحواس میں ہے نماز کا وقت داخل ہو جائے تو عذر کے حساب سے ’’دخول وقت کی شرط کے علاوہ‘‘نماز کی تمام شرطیں ارکان وغیرہ اس سے معاف ہو سکتی ہیں، لیکن نماز معاف نہیں ہو سکتی۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وقت کے اندر نماز ادا کرنا کتنا ضروری ہے اور دخولِ وقت کی شرط کتنی زیادہ اہم ہے۔ دوسری شرطیں تو کسی نہ کسی وجہ سے ساقط ہو سکتی ہیں لیکن وقت کی شرط نہیں (سوائے نیند یا نسیان کے)
مثلاً: اگر دشمن نے اسے کھمبے سے باندھ دیا ہو اور اس کا چہرہ قبلہ کی طرف نہ ہو پھر بھی اس سے نماز معاف نہیں ہے، رکوع، سجدہ، تشہد نہیں کر سکتا کوئی بات نہیں کھڑے کھڑے (جس طرح ممکن ہو)اشارے سے نماز ادا کرے۔
قبلہ رخ نہیں ہو سکتا کوئی بات نہیں، وضو یا تیمم نہیں کر سکتا، تب بھی کوئی بات نہیں، نیت ہی اس کے لیے کافی ہے۔
جنبی یا محتلم ہے اور غسل کے لیے پانی نہیں ہے، کوئی بات نہیں، تیمم کر کر کے نماز پڑھ لے۔
اگر اس کی بھی طاقت نہیں ہے تو نیت ہی کافی ہے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ جس طرح بھی ممکن ہو وقت کے اندر نماز ادا کرے، نماز معاف نہیں ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ایک باب یوں قائم کیا ہے:’’باب إذا لم يجد ماء ولا ترابا‘‘۔
اس باب کے تحت شارحین حدیث نے جو بحث پیش کی ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وهذا لا يسقط عنه الصلاة ألا تراه يقول: لا يقبل الله صلاة حائض إلاّ بخمار وهى إذا لم تجد ثوبا صلت عريانة فكذلك هذا إذا لم يجد طهورا صلى على حسب الإمكان۔
وقد يؤمر الطفل بالطهارة والصلاة ويحج به ولا يصح فى الحقيقة شيء منها وتؤمر المستحاضة بالصلاة وطهرها غير صحيح‘‘ ۔
[معالم السنن:۱؍۹۸]
اور امام ابن بطال رحمہ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں:
قال المؤلف:’’الذي لا يجد ماء ً ولا ترابًا هو المكتوف والمحبوس والمهدوم عليه والمعطوب ومن أشبههم تحضره الصلاة…‘‘
[شرح صحیح البخاری لابن بطال:۱؍۴۷۰]
اور امام ابو ثور فرماتے ہیں:
’’القياس فيمن لم يقدر على الطهارة أن يصلي ولا يعيد، كمن لم يقدر على الثوب وصلي عريانًا الصلاة لازمة له، يصلي على ما يقدر، ويؤدي ما عليه بقدر طاقته‘‘
[شرح صحیح البخاری لابن بطال:۱؍۴۷۲]
ا ور ابن القصار کا قول ہے:
’’كل من أدّي فرضه على ما كلفه لم يلزمه إعادة، كالمستحاضة، ومن به سلس البول، والعاجز عن أركان الصلاة يصلي على حسب حاله، وكالمسايف، والمسافر يحبس الماء خوفًا على نفسه من العطش، يتيمم ويصلي، كل هؤلاء إذا صلوا على حسب تمكنهم لم تجب عليهم إعادة‘‘
[شرح صحیح البخاری لابن بطال:۱؍۴۷۲]
یہ ہے نماز کی اہمیت اور وقت کے اندر اسے پڑھنے کی تاکید۔
سب سے زیادہ افسوس ان طلبہ علم اور علماء پر ہوتا ہے جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر نماز کو وقت سے موخر کر دیتے ہیں اور متعینہ وقت سے نکال کر پڑھتے ہیں۔
مثلاً: سفر کر رہے ہوں تو نماز نہیں پڑھتے، کہتے ہیں منزل پر پہنچ کر اکٹھی تمام نمازیں پڑھ لیں گے، یہ بہت ہی خطرناک سوچ ہے بلکہ ایک قول کے مطابق یہ جائز ہی نہیں ہے کہ وقت نکلنے کے بعد اسے پڑھا جائے سوائے دو اعذار کے:
(۱) سو جائے یا(۲) بھول جائے۔
اگر سو گیا ہو اور وقت نکلنے کے بعد آنکھ کھلے یا بھول گیا اور وقت نکلنے کے بعد یاد آئے تو فورا ًاسی وقت نماز ادا کرے، وہی اس کا وقت ہے۔
ان دو اعذار کے علاوہ کسی بھی عذر سے نماز کو وقت کے بعد پڑھنا جائز نہیں۔
سلف کی ایک جماعت کا یہی موقف ہے اور ان کے دلائل بھی کافی قوی ہیں، شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے المحلیٰ میں اس مسئلہ پر انتہائی قیمتی علمی بحث پیش کی ہے، طلبۂ علم کو اسے پڑھنا چاہیے۔
گرچہ اس مسئلہ میں قدیم زمانے سے اختلاف موجود ہے اور مشقت کی حالت میں اگر کسی سے نماز چھوٹ جائے تو بعد میں اس کی قضا کو بعض علما ء نے جائز کہا ہے لیکن احتیاط اسی میں ہے جو اوپر ذکر کیا گیا۔
استاد محترم شیخ محفوظ الرحمن فیضی حفظہ اللہ سے جامعہ اسلامیہ فیض عام مئو میں صحیح بخاری کے درس میں ہم نے یہی پڑھا تھا اور ابن حزم رحمہ اللہ کے موقف کو ہی شیخ اقرب الی الصواب کہتے تھے۔
پھر جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ میں شیخ عبد العزیز الصاعدی حفظہ اللہ سے اس مسئلہ کو پڑھنے کا موقع ملا، آپ نے بھی یہی باتیں ذکر کیں۔
بہت سارے حضرات (بلکہ بعض طلبہ اور علما ء بھی) رات کو جنبی ہونے یا احتلام ہونے کے بعد شرم وحیا کی وجہ سے فجر سے پہلے غسل نہیں کرتے اور فجر کی نماز چھوڑ دیتے ہیں اور پھر ظہر سے پہلے غسل کرکے ظہر کے وقت فجر کی نماز پڑھتے ہیں، یہ انتہائی درجے کی ظلم وزیادتی ہے، ایسے لوگوں کو اللہ سے ڈرنا چاہیے اور اپنے اس عمل سے توبہ کرنا چاہیے۔
رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ۔