-
نفاق کی مسموم آب و ہوا اور ہمارا معاشرہ نفاق ایک مرض ہے،ایک مہلک کینسر ہے،دین واخلاق کے لیے زہر ہلاہل ہے،نفاق کو علماء نے دو خانوں میں تقسیم کیا ہے،ایک نفاق اعتقادی ہے اور دوسرا نفاق عملی ہے،وہ گناہ جو عقیدہ ومنہج سے تعلق رکھتے ہیں اس سے انسان نفاق اعتقادی کا مرتکب ہوتا ہے،اس کا ارتکاب کرنے والا دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے،مثلاً مسلمان ہوتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف کفار سے قلبی ہمدردی رکھنا اور ان کے مفادات کے لیے کام کرنا،جیسا کہ عبداللہ بن اُبی اور مدینہ میں اس کا گروہ تھا،دوسرا عملی نفاق ہے جس کا تعلق انسان کے عمل واخلاق سے ہے لیکن اس میں مبتلا شخص دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوتا ہے،مثلاً وعدہ خلافی،جھوٹ اور خیانت وغیرہ ہے۔
یاد رہے کہ عمل وکردار کی یہ شناعتیں اگر چہ انسان کو کفر و شرک تک نہیں پہنچاتی ہیں لیکن ان کو معمولی سمجھ کر ان کا مرتکب ہونا یقیناً ہولناک نتائج کا موجب ہے،کسی گناہ کا شناعت میں کم ہونا اس لیے نہیں ہوتا ہے کہ ان کے کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے بلکہ اس لیے ہے کہ اگرچہ یہ گناہ نسبتاً کم سنگین ہے لیکن یہ بھی اللہ کو ناراض کرنے والا ہے،اس سے بھی اجتناب برتا جائے،عملی نفاق کو ہلکے میں لینے کا نتیجہ یہ ہے کہ نفاق کے چوپٹ دروازے ازخود کھل جاتے ہیں اور گناہ کا بازار گرم ہوجاتا ہے،موجودہ دور میں یہ حادثہ پیش آگیا ہے،عملی نفاق انسانی کردار اور سماجی رویوں کا حصہ بن چکا ہے،گلی گلی اور گاؤں گاؤں میں نفاق الگ الگ صورتوں میں جلوہ گر ہے،سچ کہوں تو نفاق ایک کلچر بن کر ہماری عملی زندگی میں سرایت کررہا ہے،ہمارے عمل واخلاق میں نفوذ کررہا ہے،یہ نفاق کہاں نہیں ہے؟بیٹے اور باپ کے درمیان نفاق،میاں بیوی کے درمیان نفاق،استاد اور شاگرد کے درمیان نفاق، ناظم اور ملازم کے درمیان نفاق اورحاکم ومحکوم کے درمیان نفاق،ہر طرف بس نفاق کی ہوائیں چل رہی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے نفاق کی ایک علامت قول و عمل کا تضاد بتلایا ہے،سروے کیجیے اور نفاق کے کرداروں کو قریب سے محسوس کیجیے،آپ کیا کہیں گے؟جب ایک آدمی ایک شخص کی قدم قدم پر برائی کرتا ہے،اس کے عیوب پر تبصرے کرتا ہے،پھر وہ اسی کے ہی دسترخوان پر لذت کام و دہن سے محظوظ ہوتے ہوئے اسی کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتا ہے،اس کے قدموں میں بچھا جاتا ہے،تحسین وتعریف میں ہر حد سے گزر جانا چاہتا ہے،کمال حیرت ہے،جو پہلے متکبر اور مغرور تھا، اب ملنسار اور خاکسار قرار پایا ہے،جو پہلے تنگ دل،کنجوس اور بخیل ہوتا تھا،وہ اب حاتمِ زمانہ ٹھہرایا جارہا ہے،آگے بڑھتے ہیں،ایک شخص شادی میں انواع واقسام کی نعمتوں سے معمور پرتکلف دسترخوان پر ساری کسر نکالتا ہے،حلق تک سب کچھ اتارنے کے بعد جگہ بدل کر کھڑا ہوجاتا ہے اور دانتوں میں خلال کرتے ہوئے کہتا ہے،بھلا بتایئے،اتنا خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟اتنے میں دس پندرہ غریب بچیوں کی شادیاں ہوجاتی تھیں،اسراف اور فضول خرچی سے سماج کب نجات پائے گا؟امیروں نے تو ماحول کا ستیاناس کرکے رکھ دیا ہے لیکن جیسے ہی صاحبِ خانہ کا وہاں سے گذر ہوتا ہے،فوراً لمبا سلام کرتے ہوئے قصیدہ خوانی شروع کردیتے ہیں،ماشاء اللہ کھانا بہت لاجواب تھا،انتظام بہت اچھا ہے،میٹھا تو ایسا تھا کہ ہونٹ چاٹتے رہ گئے،اب آپ فیصلہ کریں کہ قول وفعل کا یہ تضاد کیا کہلائے گا ؟نفاق اور کسے کہتے ہیں؟ ٹھہرئے، مثالیں اور بھی ہیں،ایسے کئی طبقۂ علماء کے مسیحاؤں کو دیکھا ہے جو ائمہ ومدرسین کے غم میں دبلے ہوئے جاتے تھے،ان کی کم تنخواہوں پر آنسو بہاتے تھے،وہ بھی جب کسی مسجد کے ٹرسٹی ہوئے تو زیادہ کی استطاعت رکھنے کے باوجود تنخواہ مارکیٹ کے سکۂ رائج الوقت کے مطابق رکھا اور امام پر خوب بندشیں لگائیں تاکہ یہ ڈربے میں بند ہوکر رہیں،کچھ ہاتھ پاؤں نہ مار سکیں، مسیحائی بے رحمی میں بدل جاتی ہے،مروت طوطا چشمی کا روپ دھار لیتی ہے،اس کے علاوہ آپ کو اور بہت سے تماشے ملیں گے،صرف آنکھ کھول کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔
ذرا اور آگے بڑھئے تو ظاہر وباطن کا تضاد بھی اسی نفاق کا حصہ ہے جو ایمان کے تقاضوں سے میل نہیں کھاتا ہے،اس پہلو سے مسلم سماج کو دیکھیے تو آپ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے،ایک سے بڑھ کر ایک مثال ہے،ایسے کتنے لوگ ہیں جو تقوی وللہیت کا صرف مکھوٹا اپنے ظاہر پر سجا کر رکھتے ہیں،معاملات میں تقویٰ ان کے اندر سے ایسے غائب ہوجاتا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔۔۔۔۔یقین نہ آئے تو موجودہ شادیوں کے پررونق بازار میں داخل ہوجایئے،تقویٰ کا خوبصورت لباس دیکھ کر رشتہ پیش کردیجیے،آپ کو کئی بہانوں سے وہی تکلیف دہ صورتحال نظر آئے گی جو دنیا داروں کے یہاں پائی جاتی ہے،بات وہ نہیں کریں گے ایک ثالث کرے گا،وہ کہے گا الحمدللہ حضرت جی کو کسی چیز کی کمی نہیں ہے،یہ بے نیاز ہیں،ابھی حج سے لوٹے ہیں،آپ لین دین کے سخت خلاف ہیں لیکن اپنے بچوں کے آگے کس کی چلتی ہے؟لڑکا کہتا ہے کہ ’’موین‘‘ کے ساتھ کار بھی چاہیے،فلاں اور فلاں مطالبہ ہے،حالانکہ حضرت جی اس کے سخت مخالف ہیں،یہ پوری گفتگو حضرت جی براہ راست سن رہے ہوں گے لیکن سر اوپر نہیں اٹھائیں گے،اس لیے کہ ترجمانی ان کی ہورہی ہوتی ہے،بس اپنی متقیانہ شہرت کا بھرم رکھنے کے لیے اپنی زبان سے کچھ نہیں کہتے بلکہ ترجمان سے کہلواتے ہیں،کیا یہ ظاہر وباطن کا کھلا تضاد نہیں ہے؟آدمی دین وتقویٰ کی ظاہر داری برتے اور بباطن ایسی دنیادارانہ خواہشات پال کر رکھے،افسوس کا مقام ہے۔
لباس زہد کی ظاہر فریبیوں پہ نہ جا
چڑھے ہوئے ہیں اندھیروں پہ روشنی کے غلاف
ظاہر اور باطن کی بو العجبی ذرا سمت بدل کر ایک دوسرے حلقے میں دیکھیں گے تو تضاد کی انتہائی خوفناک صورت نظر آئے گی،عقیدہ وفقہ کے کئی مسائل میں اہل حدیث کی طرف سے پیش کیے جانے والے قطعی دلائل کا جب پہلی بار دیدار ہوتا ہے تو دل گواہی دیتا ہے کہ علماء اہل حدیث کا موقف ہی صحیح ہے،مگر اپنے بزرگوں کے نامنہاد تفقہ کی لاج رکھنے کے لیے اور اپنے متعصب سماج کے ہاتھوں رسوائی سے بچنے کے لیے مسلک کی ریکھا سے ذرا بھی نہیں سرکتے ہیں،ہاں کبھی کبھار خفیہ سرگوشیوں کی بھنک باہر آجاتی ہے تو اپنا سا منہ لے کررہ جاتے ہیں،یہ ظاہر وباطن کا تضاد ہی تو ہے کہ زندگی بھر تین طلاق کے تین واقع ہونے کے فتوے دیتے رہے لیکن جب اپنی بیٹی تین طلاق کی زد میں آئی تو کہتے ہیں،اس مسئلے میں تو علماء اہل حدیث کا موقف ہی صحیح ہے،ہم لوگ اپنی فقہ سے ہٹ کر فتویٰ نہیں دے سکتے،تم ان کے علماء سے ہی فتویٰ حاصل کرو،وہاں عافیت مل جائے گی،وگرنہ حلالہ کے بازار میں ہمارا سب کچھ لٹ جانے والا ہے،پوری زندگی شرمساری کے گھٹن میں گزرے گی۔
اگر ہم غور کریں تو ایسے سینکڑوں عملی مناظر ہیں جن میں نفاق کا رنگ صاف نظر آتا ہے،یہ ایک چلن بن چکا ہے،یہ ایک کلچر کی شکل اختیار کرچکا ہے،بہتیروں کے یہاں صبح وشام کا مشغلہ ہے،کتنوں کے یہاں یہ بزنس کا اخلاق بن چکا ہے، نفاق کے مریضوں کو نبی ﷺ کے اسوے سے سبق لینے کی ضرورت ہے،آپ نے اپنی زندگی کے کٹھن اور مشکل لمحات میں بھی کبھی اس قسم کے چونچلوں سے کام نہیں لیا،آپ دو ٹوک اور کھرے تھے،برجستہ اور بے ساختہ تھے،راست باز اور صدق شعار تھے ،نہ تو اپنی چال ڈھال میں اداکاری برتی اور نہ گفتار میں لاگ لپیٹ رکھا،کبھی لیپا پوتی اور ملمع سازی نہیں کی،کبھی خوشامد اور بے جا پذیرائی نہیں کی،حضرت عبداللہ بن سرح جب مرتد ہوگئے اور آپﷺ کے بارے میںبہت نامناسب باتیں پھیلانے کی کوشش کی،فتح مکہ کے بعد آپ ﷺ نے ان کے قتل کا حکم صادر فرمادیا تھا ،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان کی معافی کے لیے ان کو لے کر خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور سفارش کی،ان کے دو بار معافی کی درخواست پر بھی آپ خاموش رہے،تیسری بار جب انہوں نے درخواست کی تو آپ نے معافی دے دی،مگران دونوں کے وہاں سے رخصت ہونے کے بعد آپ ﷺ نے کہا،جب میں عثمان رضی اللہ عنہ کے کہنے پر خاموش تھا،کیوں نہیں تم لوگوں نے اسے قتل کردیا، لوگوں نے کہا،اے اللہ کے رسول: آپ کو ذرا سا آنکھ سے اشارہ تو کرنا چاہیے تھا،ہم اسے قتل کردیتے،اللہ کے نبی ﷺ نے اس موقع پر بہت فکر انگیز جملہ کہاتھا،آپ نے فرمایا:’’لَا يَنْبَغِي لِنَبِيٍّ أَنْ تَكُونَ لَهُ خَائِنَةُ الْأَعْيُنِ‘‘’’پیغمبر آنکھوں کے اشارے نہیں کیا کرتے‘‘[سنن ابی داؤد:۴۳۵۹، صحیح]
سوچئے!کتنا عظیم سبق ہے اس مثال میں،گویانبی ﷺ فرمارہے ہیں،ایک ہی مجلس میں ایک شخص کے سامنے کچھ ظاہر کروں اور تمہارے سامنے اس کے برخلاف کچھ اور تاثر دوں،یہ دو رخاپن میرا اور کسی پیغمبر کا طریقہ نہیں ہے،آپ نے یہ ادنیٰ چھل بھی گوارہ نہیں فرمایا،آج کنکھیوں سے کیا کچھ کام نہیں لے لیا جاتا ہے،زمین پر اتر کر دیکھیے،انسانی زندگی کا غور سے جائزہ لیجیے،دشمنی دوستی کی اوٹ سے جھانکتی نظر آئے گی،جھوٹ سچ کے پردے سے سر نکالے گا،فریب اعتماد کے چلمن میں جھلکے گا،انجامِ کار آپ کو ماننا پڑے گا کہ معاشرہ نفاق کے دلدل میں گہرا دھنستا چلا جارہا ہے،لوگ دوہرے معیار وکردار کے خوگر ہوتے جارہے ہیں،لہٰذا اے اللہ تیری پناہ۔۔۔
الٰہی آبرو رکھنا بڑا نازک زمانہ ہے
دلوں میں بغض رکھتے ہیں بظاہر دوستانہ ہے