-
رمضان میں ہونے والی بدعتیں روزے کی نیت کے الفاظ:
رمضان المبارک کے کیلنڈر پر روزوں کی نیت کے لئے یہ الفاظ اکثر لکھے جاتے ہیں: ((وبصومِ غدٍنویتُ من شھرِ رمضانَ))’’میں نے رمضان المبارک کے مہینہ سے کل کے روزے کی نیت کی‘‘حالانکہ یہ الفاظ نہ کسی صحیح حدیث سے ثابت ہیں نہ ضعیف سے ۔بلکہ یہ منگھڑت ہیں۔اگر ان کے کلمات کی ترتیب اور مفہوم پر غور کریں تو جھوٹ کا پول کھل جاتا ہے۔ اس دعا میں ’’غد‘‘کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ قیامت کیلئے لفظ غدکا استعمال قرآن میں دو جگہ پر استعمال ہوا ہے ۔{ یأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ}’’اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور چاہئے کہ ہر شخص دیکھ لے اس نے’’کل‘‘ (قیامت) کیلئے آگے کیا بھیجاہے‘‘(الحشر:۱۸) {سَیَعْلَمُونَ غَدًا مَنِ الْکَذَّابُ الْأَشِرُ} ’’عنقریب کل‘‘( قیامت کے دن)یہ لوگ جان لیں گے کہ کون جھوٹا خود پسندہے۔‘‘(القمر:۲۶) اور آنے والے کل کے لئے لفظ غد تین جگہوں پر استعمال ہوا ہے۔ {أَرْسِلْہُ مَعَنَا غَدًا یَرْتَعْ وَیَلْعَبْ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ }’’آپ اسے (یوسف علیہ السلام کو)’’کل‘‘ہمارے ساتھ بھیج دیجئے‘‘(یوسف:۱۲){مَاذَا تَکْسِبُ غَدًا }’’تو کل کیا کمائے گا‘‘(لقمان:۳۴){وَلَا تَقُولَنَّ لِشَیْء ٍ إِنِّی فَاعِلٌ ذَلِکَ غَدًاإِلَّا أَنْ یَشَاء َ اللَّہُ }’’ہر کسی کام پر آپ یوں نہ کہیں ،میں اسے کل کروں گا،مگر ساتھ ہی ان شاء اللہ (اگر اللہ چاہے)بھی کہہ لیجئے‘‘ (الکہف:۲۳)معلوم ہوا کہ قرآن میں لفظ غد صرف دو ہی معنوں کے لئے استعمال ہوا ہے (۱)آنے والا کل(۲)قیامت کا دن۔ اب دونوں معنوںکو ذہن میں رکھتے ہوئے روزے کی نیت والے الفاظ پر غور کرتے ہیں وبصوم غد نوییت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کا معنیٰ یا تو یہ بنتا ہے’’ میں نے قیامت والے دن کے روزے کی نیت کی ‘‘اور قیامت والے دن روزہ رکھنا کوئی انعام نہیں بلکہ وہ تو ایک سزا ہے۔
اگر غد کا معنیٰ ’’آنے والا کل‘‘کریں تو’’وبصوم غد نویت‘‘کا مطلب ہے ’’میں نے کل کے دن کے روزے کی نیت کی ‘‘اور روزہ تو سحری کے وقت آج کے دن کا رکھ رہا ہے اور نیت کل کی کر رہا ہے۔
معلوم ہوا کہ ان مخصوص الفاظ کے ساتھ روزے کی نیت کرنا ایک طرح کی بدعت ہے جس پر عمل کرنا قرآن وحدیث کے خلاف ہے ۔
روزے کی افطاری:
نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم افطاری میں جلدی اور سحری میں تاخیرکیا کرتے تھے،لیکن ہمارے یہاں افطاری میں دیرکرنا اور سحری میں جلدی کرنا پسندیدہ سمجھا جاتا ہے اور یہ احادیث مبارکہ اور نبی ﷺ کی اور آپ کے صحابہ کی کھلی مخالفت ہے ۔نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ روزہ کھولتے وقت جلدی کرتے تھے یہ نہیں کہ وقت سے پہلے کھولتے تھے۔لیکن جیسے ہی سورج غروب ہوا فورا روزہ افطار کرلیا ۔
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:((لَا یَزَالُ النَّاسُ بِخَیْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ)) لوگ اس وقت تک ہمیشہ بھلائی میں رہیں گے جب تک روزہ کھولنے میں جلدی کریں گے ۔‘‘(صحیح مسلم: باب فضل السحور)(۱۰۹۸)
لیلۃ القدر صرف ستائیسویں رات کے ساتھ خاص کرنا:
نبی ﷺ کے فرمان کے امطابق رمضان المبارک کا آخری عشرہ لیلۃ القدرہے اور اس رات کی احادیث میں بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے ۔نبی ﷺ اس کی تلاش میں بہت کوشش کیا کرتے تھے۔ لیکن ایک مخصوص طبقہ نے اخری عشرہ کی طاق راتوں میں اسے تلاش کرنے اور ان راتوں میں عبادت سے پیچھا چھڑانے کے لئے لیلۃ القدر کو صرف ستائیسویں رات کے ساتھ خاص کردیا ہے۔ اس رات کے بارے میں عجیب حکایات گھڑ رکھی ہیں مثلا اس رات بعض ایسے لمحات آتے ہیں کہ پانی دودھ بن جاتا ہے یا اس وقت آسمان سے ستارہ ٹوٹتا ہے۔اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ کیچڑ اور بارش وغیرہ کا بعض روایتوں میں تذکرہ ملتا ہے اس کے علاوہ کسی اور چیز کا ثبوت نہیں ملتا ہے۔ لیلۃ القدر کو صرف ستائیسویں رات کے ساتھ خاص کرنے کا کوئی ثبوت نبی ﷺ سے نہیں ملتا ہے۔ نبی ﷺ نے کسی ایک رات کومتعین نہیں فرمایا بلکہ لیلۃ القدر کو رمضان المبار ک کے آخری عشرے کی طاق راتوں سے خاص کیا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا :((إِنِّی أُرِیتُ لَیْلَۃَ القَدْرِ، ثُمَّ أُنْسِیتُہَا – أَوْ نُسِّیتُہَا – فَالْتَمِسُوہَا فِی العَشْرِ الأَوَاخِرِ فِی الوَتْرِ، وَإِنِّی رَأَیْتُ أَنِّی أَسْجُدُ فِی مَاء ٍ وَطِینٍ،))’’شب قدر مجھ کو دکھائی گئی لیکن میں بھلا دیا گیا پس تم اسے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرواور میں نے دیکھا کہ میں پانی اور کیچڑ میں سجدہ کررہا ہوں ۔‘‘(صحیح البخاری:باب التماس لیلۃ القدر))(۲۰۱۶)
ایک دوسری روایت حضرت عائشہ ؓ عنہا سے مروی ہے((تَحَرَّوْا لَیْلَۃَ القَدْرِ فِی الوِتْرِ، مِنَ العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ)) ’’کہ سول اللہ ﷺ نے فرمایا شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘(صحیح البخاری:۲۰۱۷)
اس لئے لیلۃ القدر کو صرف ستائیسویں رات میں تلاش کرنے کی بجائے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرنا چاہئے۔
آخری عشرے میں چراغاں کرنا:
ہمارے بہت سارے بھائی رمضان کے آخری عشرے میں مسجدوں گھروں گلی کوچوں اور سڑکوں کو قمقموں اور بجلیوں سے روشن کرتے ہیں جو کہ یہود ونصاری کی مشابہت ہے جس طرح سے ہندولوگ دیوالی کے موقعہ پر اپنے گھروں اور سڑکوں کو سجاتے ہیں اسی طرح طرح یہ لوگ بھی کرتے ہیں۔ اور یہ کام غریب لوگوں کے لئے بہت مشکل کام ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ اسراف اور فضول خرچی ہے ۔اللہ نے اسرف کرنے سے منع کیا ہے اور اسراف کرنے والوں کو شیطان کا بھائی کہا ہے۔ اس کا حل پیش کرنے سے پہلے میں ایک چھوٹا سا سوال کرتا ہوں کہ مساجد میں چراغاں کرنے کا حکم کس نے دیا ؟نبی ﷺ یا صحابہ کرام ؓ عنہم نے یا ائمہ دین نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان جلتی ہوئی بتیوں سے مسجدوں کو کیا فائدہ ۔نہ تو مسجد کو فائدہ نہ اس سے نمازیوں کے دل روشن ہو سکتے ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ اس رقم کو اس طرح خرچ کرنے کے بجائے کسی غریب کو یا پھر کسی مسجد کے فنڈ میں جمع کردینا چاہئے۔ میرے بھائیو!اصل چیز دل کا روشن ہوناہے۔ دل روشن ہونا چاہئے جب دل میں ایمان کی شمع بجھ جائے د ل کالا ہوجائے تو میناروں کو روشن کرنے سے کیا فائدہ ۔صحابہ کے دل ایمان سے منور تھے ان کی مسجدیں ذکر اور ان کی سسکیوں سے گونج جایا کرتی تھیں آج ہم اور آپ پوری رات بیٹھ کر ادھر ادھر گزار دیتے ہیں اور اسی کو شب بیداری کا نام دیتے ہیں ۔
شبینہ کا اہتمام
رمضان المبارک کی طاق راتوں میں اس چیز کا اہتمام بھی ہوتا ہے کہ شبینہ کے اشتہارات چھپتے ہیں جن پر مرقوم ہوتا ہے ساری رات قیام اور رات بھر میں قرآن پاک کو ختم کیا جائے گا ،اور یوں عشاء سے فجر تک قیام ہوتا ہے اور قرآن کو ختم کیا جاتا ہے۔ اور بعض لو گ تو یوں سمجھتے ہیں کہ پورا رمضان قرآن کو ہاتھ لگانے کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ قیام کی ضرورت ہے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سارا قرآن سن لیں گے۔ اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ قاری حضرات دو رکعت میں ایک پارہ قراء ت کرتے ہیں اور مقتدی پیچھے کھڑے ہوکر سنتے ہیں اور اسی طرح رات ایک بجے تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور کئی کئی پارے اور کئی رکعات نفل نماز ادا کی جاتی ہیں۔کیا یہ عمل رسول اللہ ﷺ اور صحابہ ؓ عنہم یا تابعین ؓ عنہم سے ثابت ہے اگر نہیں تو تو کیا یہ عمل باعث ثواب ہو سکتا ہے۔
اس میں دو باتیں قابل غور ہیںایک تو نفل نماز با جماعت ادا کرنا،دوسرانماز نفل کا اپنی طرف سے مقررہ اہتمام اور اس پر دوام واصرار کرنا یعنی خاص وقت یا معین مہینہ میں اس کا خصوصی اہتمام کرنا ۔اول الذکر بات تو نبی ﷺ سے ثابت ہے۔ عبد اللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ میں ایک رات اپنی خالہ سیدہ میمونہ ؓ کے پاس ٹہرا ہواتھا جب((فَقَامَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی مِنَ اللَّیْلِ، فَقُمْتُ أُصَلِّی مَعَہُ ))’’ رسول اکرم ﷺ تہجد میں مشغول ہوئے تو میں آپ ﷺ کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا ان کی اقتداء میں نماز تہجد پڑھنے لگا ‘‘(صحیح البخاری:باب اذا لم ینو الامام)(۶۹۹)
اسی طرح صحیح بخاری باب صلاۃ النواف جماعۃ میں محمود بن ربیع ؓ سے سیدنا عتبان بن مالک کا واقعہ منقول ہے کہ رسول اکرم ﷺ سیدنا عتبان کی فرمائش پر ان کے گھر تشریف لائے اور دو رکعت نماز با جماعت اد ا فرمائی(صحیح البخاری :باب صلاۃ النوافل)(۱۱۸۶)
ان دونوں احادیث صحیحہ سے ثابت ہوا کہ نماز نفل کی جماعت بلا شک وشبہ جائز ہے لیکن اس کے لئے ا علان کرنا مردوں اور عورتوں کو بذریعہ اشتہارات جمع کرنا بدعت معلوم ہوتا ہے ۔کیونکہ مطلقا نماز باجماعت ادا کرنا تو صحیح ہے لیکن یہ قیود مع الاہتمام بدعت ہے۔
امام ابو اسحاق شاطبی فرماتے ہیں :
’’یہ بھی بدعات میں سے ہے کہ کسی نیک عمل کی ادئیگی کے لئے اجتماع کی صورت میں ایک ہی آواز کے ساتھ ذکر کا التزام کرنا،عید میلاد النبی اور اس کے مثل دیگر امور۔ اور ان بدعات میں سے یہ بھی ہے کہ عبادات کو معین کرنا،معین اوقات کے ساتھ جن کی تعیین شریعت میں نہیں پائی جاتی۔‘‘(مجلۃ الدعوۃ:۱۹۹۳)
امام شاطبی کی اس تصریح سے یہ بات معلوم ہوئی کہ شریعت نے عبادات و اطاعات کو مطلق چھوڑا ہے،ان میں سے اپنی پابندیاں عائد کرنا ان کی ہیئت وکیفیت کو بدلنا ہے۔ ان اوقات کے ساتھ معین کرنا گویا دین کو بدلنا ہے اور اس کا نا م تحریف اور گمراہی ہے۔لہٰذا لوگوں کا نوافل کے لئے اہتمام ،خصوصی شبینہ کرنا اس کے لئے لوگوں کو تیار کرنا سراسر سنت اور سبیل المومنین کے خلاف ہے۔صحابہ کرام ؓ تابعین،فقہاء،محدثین نے اس تکلف اور اہتمام کو پسند نہیں کیا ہے لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہئے اور جو عبادت کا طریقہ ہے اس پر عمل کرنا چاہئے۔
اعتکاف میں آزادی اور تنگی:
رمضان کے مہینہ میں اعتکاف کرنا خصوصا آخری عشرہ میں نبی ﷺ کی سنت ہے اور بہت زیادہ اجر وثواب ہے لیکن لوگوں نے اس میں بہت زیادہ تنگیاں اور آزادیاں اختیار کرلی ہیں۔ اور وہ تبدیلیاں دو طرح کی ہوئی ہیں (۱)اعتکاف میں آزادی (۲)اعتکاف میں تنگی۔ ایک گروہ نے اعتکاف میں اتنی زیادہ آزادی اختیار کی ہے کہ بعض اوقات مسجد کا تقدس بھی ختم ہو جاتا ہے۔ مثلا مسجد میں بیٹھ کر ہمہ وقت گپیں لگائی جا رہی ہیں سیاست کی باتیں ہوتی ہیں یہاں تک کہ بسا اوقات لڑائی جھگڑے کی نوبت آجاتی ہے۔اس طرح اعتکاف کرنے والے ایک تو مسجد کی حرمت کو پامال کرتے ہیں دوسرے نمازیوں کو بھی تکلیف دیتے ہیں۔ اعتکاف کرنے والے کو چاہئے کہ وہ اگر اللہ کی بارگاہ میں آیا ہے تو کم سوئے،کم کھائے اور کم بولے اور سارا وقت اللہ کی عبادت میں گذارے ،یہی اعتکاف کی روح ہے۔
دوسرا گروہ وہ ہے جس نے اعتکاف میں آزادی کو بالکل ختم کردیا ہے۔ وہ اگر اعتکاف سے کسی ضروری کام کے لئے نکلیں مثلا قضائے حاجت کے لئے تو منہ کو کپڑے سے چھپا لیتے ہیں تاکہ کوئی دیکھ نہ لے۔ خواہ مخواہ یہ ایک طرح کی سختی ہے۔ اور دوسرا کام اس میں یہ ہوتا ہے کہ جیسے ہی عید کا چاند نظر آتا ہے اور اعتکاف کے دس دن پورے ہوتے ہیںتو اس کے گھر والے اور اس کے رشتہ دار اس کو مسجد سے لینے کے لئے ڈھول تاشے اور ’’ڈی۔جے‘‘ وغیرہ لیکر پہونچ جاتے ہیںاور اسے پھول اور نوٹوں کا سحرا پہنا کر لے جاتے ہیں اور عجیب انداز سے اس کو گھر لے جاتے ہیں ۔
اعتکاف کرنے والے کو اس طرح سے نکلنا چاہئے کہ اس پر اللہ کا خوف طاری ہو۔ اپنے گناہوں سے معافی مانگتے ہوئے یوں نکلنا چاہئے کہ یہ بندہ تیرے دربار پر آیا مگر عبادت کا حق ادا نہ کر سکا لیکن تیرے در پر ضرور آیا اس لئے تو میرے ان ٹوٹے پھوٹے سجدوں کو قبول فرما۔
اللہ سے دعاہے کہ اللہ رب العلمین ہم لوگوں کو کتاب وسنت کے مطابق عمل کرنے والابنائے۔