Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • مبادیٔ توحید ربوبیت (قسط :۴)

    ۹۔ دلیل ہدایت : یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا میں پائی جانے والی تمام مخلوقات کے اندر ایک ایسا الہام ہوا کرتا ہے جس کے ذریعہ وہ اپنی ضروریات زندگی پوری کرتی ہیں، اور یہ وہی ہدایت عامہ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلٰي، الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّيٰ، وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَيٰ}
    ’’(اے پیغمبر) اپنے برتر و اعلیٰ پروردگار کے نام سے (اس کی) پاکی بیان کرو، جس نے (انسان کو) پیدا فرمایا، پھر اسے ٹھیک ٹھیک درست کیااور جس نے ہر وجود کے لئے ایک اندازہ ٹھہرایا پھر اسے راستہ بتایا‘‘
    [الاعلیٰ:۱۔۳]
    چنانچہ ہر مخلوق اپنے چاروں طرف وہی پاتی ہے جس میں اس کے لئے پرورش اور نشو و نما کا سامان ہوتا ہے اور یہ در حقیقت اس مصلحت کا تقاضا ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کو وجود میں لایا ہے، جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’جميع المخلوقات خلقت لغاية مقصودة بها، فلا بد أن تهدي إلى الغاية التى خلقت لها، فلا تتم مصلحتها وما أريدت له إلا بهدايتها لغياتها‘‘
    ’’تمام مخلوقات ایک خاص مقصد کے تحت پیدا کی گئی ہیںتو انہیں اس مقصد کی طرف رہمنائی کرنا ضروری تھا جس کی خاطر انہیں وجود میں لایا گیا ہے، کیونکہ ان کی (تخلیق کی)مصلحت اور ارداہ اسی وقت پورا ہو سکتا ہے جب وہ اپنے مقصدِ (تخلیق)کو جان لیں‘‘
    [مجموع الفتاویٰ:۱۶؍۱۳۰]
    اور علامہ ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ہر مخلوق کی طبیعت میں ایک اندرونی الہام ہے جو اسے زندگی اور پرورش کی راہوں پر خود بخود لگا دیتا ہے اور وہ باہر کی رہنمائی و تعلیم کی محتاج نہیں ہوتی،انسان کا بچہ ہو یاحیوان کا جونہی شکم مادر سے باہر آتا ہے خود بخود معلوم کر لیتا ہے کہ اس کی غذا اس کی ماں کے سینے میں ہے…اور یہی وجدانی ہدایت ہے جو قبل اس کے کہ حواس و ادراک کی روشنی نمودار ہو ہر مخلوق کو اس کی پرورش و زندگی کی راہوں پر لگا دیتی ہے‘‘(ترجمان القرآن:۱؍۷۹۔۸۰)
    اور اسی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے بیان فرمایا ہے:
    {الَّذِي أَعْطَيٰ كُلَّ شَيْئٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَيٰ}
    ’’جس نے ہر چیز کو اس کی بناوٹ دی پھر اس پر (زندگی و معیشت کی) راہیں کھول دی‘‘
    [طٰہ:۵۰]
    خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کی تمام مخلوقات کو نشو و نما کے سامان اور ان کی ضروریاتِ زندگی کی طرف رہنمائی کرنے والی وہی ذات عالی ہے جو اس کائنات کا خالق ،مالک اور مدبر ہے۔
    ۱۰۔ دلائل نبوت : ہر وہ دلیل جو نبی کی سچائی پر دلالت کرتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے وجود پر دلالت کرتی ہے، جیسے: معجزے اور انبیاء کرام علیہم السلام کی دعائیں قبول ہونا وغیرہ۔دیکھیں:
    [دلائل الربوبیۃ:ص:۶۴]
    اولاً: انسانی زندگی انبیاء کرام علیہم السلام کی نبوت کی اہمیت:
    انسانی زندگی کی سب سے بڑی ضرورت اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی رہنمائی کاحاصل ہونا ہے اور اسی لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ہدایت کی خاطر ہر امت میں ایک رسول کو مبعوث فرمایا، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    {وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ}
    ’’اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور بتوں (کی پرستش) سے اجتناب کرو‘‘
    [النحل : ۳۶]
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’الرسالة ضرورية للعباد لا بد لهم منها، وحاجتهم إليها فوق حاجتهم إلى كل شيء، والرسالة روح العالم ونوره وحياته، ف أى صلاح للعالم إذا عدم الروح والحياة والنور ’’والدنيا مظلمة ملعونة إلا ما طلعت عليه شمس الرسالة، وكذلك العبد ما لم تشرق فى قلبه شمس الرسالة يناله من روحها وحياتها فهو فى ظلمة، وهو من الأموات‘‘
    [مجموع الفتاویٰ:۱۹؍۹۳]
    ولذا سمي اللّٰه رسالته روحا ونورا، فلا روح ولا نور إلا بالرسالة، يقول تعالي :
    {وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَائُ مِنْ عِبَادِنَا}
    ’’رسالت بندوں کے لئے لا محالہ طور پر ضروری ہے اور ان کی یہ ضرورت ہر ضرورت سے بڑھ کر ہے اور (در حقیقت)رسالت دنیا کی روح اس کی روشنی اور اس کی زندگی ہے، لہٰذا اگر روح، زندگی اور روشنی ہی ختم ہو جائے تو دنیا کے لئے کون سی چیز میںبہتری ہو سکتی ہے؟!
    دنیا تاریک اور ملعون ہے مگر جہاں آفتاب رسالت طلوع ہوا ہو۔
    اور اسی طرح بندہ اس وقت تک تاریکی میں رہتا ہے، بلکہ (اس کی حیثیت) ایک مردے (کی) ہے جب تک کہ اس کے دل میں آفتاب رسالت طلوع نہ ہو جس کی روح و زندگی سے (آب حیات) حاصل کرتا ہے۔
    اور اسی لیے اللہ نے نبی کریم ﷺکی رسالت کو روح و روشنی سے موسوم فرمایا ہے لہٰذا رسالت کے بغیر روح و روشنی کا تصور نہیں کیا جا سکتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :اور اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے تمہاری طرف روح (قرآن)بھیجا ہے، تم نہ تو کتاب کو جانتے تھے اور نہ ایمان کو، لیکن ہم نے اس کو نور بنایا ہے تاکہ اس کے ذریعہ ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں‘‘
    [سورۃ الشوریٰ:۵۲،مجموع الفتاویٰ: ۱۹؍ ۹۴]
    چنانچہ انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کے پیچھے جو بنیادی مقاصد کار فرما تھے، وہ منجملہ تین اصولوں کو متضمن ہیں:
    ۱۔ اللہ تعالیٰ کی صفات، توحید اور تقدیر کو بیان کرنا۔
    ۲۔ شرائع، امر، نہی اور اللہ کے نزدیک محبوب و مکروہ اشیاء کو بیان کرنا۔
    ۳۔ یوم آخرت، جنت، جہنم اور جزا و سزا پر ایمان رکھنا ۔دیکھیں:[مجموع الفتاویٰ:۱۹؍۹۶]
    لہٰذا جن لوگوں نے ان کے طریقے کے مطابق زندگی گزاری وہ اہل سعادت ہیںاور جنہوں نے ان کی مخالفت کی وہ اہل شقاوت ہیں۔
    گویا انبیاء کرام علیہم السلام کی نبوت انسانوں کے لئے تمام ضرورتوں سے بڑھ کر تھی، لہٰذا اس کا انکار وہی کر سکتا ہے جو معاند و مکابر ہو۔
    واضح رہے کہ رسول کی رسالت کا انکار کرنا در اصل اللہ عز وجل کا انکار کرنا ہے اور اسی لیے اسے کفر قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    {إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللّٰهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللّٰهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا أُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا}
    ’’جو لوگ اللہ سے اور اس کے پیغمبروں سے کفر کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے پیغمبروں میں فرق کرنا چاہتے ہیںاور کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے ہیںاور ایمان اور کفر کے بیچ میں ایک راہ نکالنا چاہتے ہیں وہ بلا شبہ کافر ہیںاور کافروں کے لئے ہم نے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘
    [النساء:۱۵۰۔۱۵۱]
    علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’إن إرسال الرسل أمر مستقر فى العقول، يستحيل تعطيل العالم عنه كما يستحيل تعطيل الصانع، فمن أنكر الرسول أنكر المرسل، ولم يؤمن به، و لهذا جعل سبحانه الكفر برسله كفرا به‘‘
    ’’بے شک رسولوں کو بھیجنا ایک ایسا معاملہ ہے جو عقلوں میں مستقر و مرکوز ہے دنیا سے اس کی نفی کرنا ویسے ہی محال ہے جس طرح رب کے(وجود)کی نفی کرنا محال ہے، چنانچہ جس نے بھی رسول کا انکار کیا اس نے بھیجنے والے (وجود الہٰی) کا انکار کیا اور اس نے ان پر ایمان نہ لایا اور اسی لیے اللہ سبحانہ نے رسولوں کے انکار کو خود اس (کے وجود)کا انکار قرار دیا ہے‘‘دیکھیں:[مدارج السالکین:۱؍۱۵]
    ثانیاً: دلائل نبوت اللہ تعالیٰ کے وجود پر دلالت کرتے ہیں:
    أ۔ معجزے: ایسے امور جو عادتاً نہ پائے جاتے ہوں جن کے ذریعہ (مخالفین کو) چیلنج کیا گیا ہو اور اللہ تعالیٰ انہیں اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کی دعاؤں کے مطابق ان کی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے ان کے ہاتھوں ظاہر فرمائے۔ دیکھیں: [مذکرۃ الإیمان بالرسول للدکتور باکریم :ص:۴۵]
    انبیاء کرام علیہم السلام کے معجزات کے چند نمونے:
    أ۔ حضرت صالح علیہ السلام کا معجزہ، جیسے:اللہ تعالیٰ کی اونٹنی۔
    ب۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا معجزہ، جیسے: مردہ پرندوں کو زندہ کرنا۔
    ج۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ، جیسے:لاٹھی کا سانپ بن جانا۔
    د۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ، اللہ تعالیٰ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرنا۔
    ھ۔ نبی کریم ﷺکا معجزہ، جیسے:چاند کا دو ٹکڑے ہونا۔
    ایسے بہت سارے معجزے کا ذکر آیا ہے جو انبیاء کرام علیہم السلام کی سچائی پر دلالت کرتے ہیں اور یقیناً وہ اس ذات کے وجود پر دلالت کرتے ہیں جس نے انہیں وجود میں لایا ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    من نازع فى إثبات صانع يقلب العادات، ويغير العالم عن نظامه، فأظهر المدعي للرسالة المعحز الدال علٰي ذلك، علم بالضروره ثبوت الصانع الذى يخرق العادات ويغير العالم عن النظام المعتاد۔
    و بالجملة فانقلاب العصا حية أمر يدل نفسه علٰي ثبوت صانع قدير عليم حكيم أعظم من دلالة ما اعتبر من خلق الإنسان من نطفة…‘‘
    ’’یعنی جو بھی اس رب حقیقی کے (وجود)کو ثابت کرنے میں منازعہ کرے جو عادات کو پلٹنے اور دنیا کو اس کے نظام سے بدلنے پر قدرت رکھتا ہے، پس اس نے رسالت کے دعویدار (رسول)کے لیے ایسے معجزے کو ظاہر فرمایا جو اس (کی سچائی)پر دلالت کرتا ہے، (چنانچہ)اس (منازع)نے بدیہی طور پر اس رب حقیقی کے ثبوت کو جان لیا جو عام عادتوں سے ہٹ کر مختلف امور کو ظاہر کرنے اور کائنات کو عام نظام سے الگ ترتیب دینے پر قادر ہے۔
    اور خلاصہ کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ لاٹھی کا سانپ (کی شکل میں) بدل جانا ایک ایسا امر ہے جو خود اس رب حقیقی کے (وجود کے) ثبوت پر دلالت کرتا ہے جو قدرت رکھنے والا، جاننے والا اور حکمت والا ہے، (ساتھ ہی یہ امر ) انسان کا نطفے سے پیدا ہونے سے کہیں زیادہ بڑی دلیل ہے‘‘[درء تعارض العقل والنقل:۹؍۴۳۔۴۴]
    ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے وجود پر دلالت کرنے والے تمام دلائل میں سب سے قوی اور مضبوط دلائل انبیاء کرام کے معجزات ہیں، جیسا کہ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’وهذه الطريق من أقوي الطرق وأصحها وأدلها على الصانع وصفاته وأفعاله…فإنها جمعت بين دلالة الحس والعقل، ودلالتها ضرورية بنفسها‘‘
    ’’اور یہی طریقہ سب سے مضبوط اور سب سے صحیح اور سب سے واضح ہے جو رب حقیقی کے (وجود) اور اس کی صفوں اور اس کے افعال پر دلالت کرتا ہے…کیونکہ یہ حسی و عقلی دلیل کو شامل ہے، اور (اس دلیل) کی دلالت بذات خود ایک بدیہی (امر) ہے‘‘
    [الصواعق المرسلۃ: ۳؍۱۱۹۷]
    ب۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی دعائیں قبول ہونا : بہت سے مواقع پر انبیاء کرام علیہم السلام کی دعائیں بروقت اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی ہے اور یہ امر اس ذات عالی کے وجود پر دلالت کرتا ہے جو اپنے بندوں کی دعائیں قبول فرما کر ان کی ضروریات کو پوری کرتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    {أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوئَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَائَ الْأَرْضِ أَإِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ}
    ’’بھلا کون بے قرار کی التجا قبول کرتا ہے جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور (کون اس کی) تکلیف کو دور کرتا ہے اور (کون) تم کو زمین میں (اگلوں کا) جانشین بناتا ہے (یہ سب کچھ اللہ کرتا ہے) تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں مگر) تم بہت کم غور کرتے ہو‘‘
    [ النمل:۶۲]
    انبیاء کرام علیہم السلام کی دعائیں قبول ہونے کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں، جیسے:حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ایوب علیہ السلام، حضرت یونس علیہ السلام، حضرت یحییٰ علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، اور نبی کریم ﷺ کی دعائیں بطور نمونہ دیکھی جا سکتی ہیں۔
    خلاصہ یہ ہے کہ طلب کے وقت انبیاء کرام علیہم السلام کی دعائیں قبول ہونا جس طرح ان کی نبوت و سچائی پر دلیل ہے، اسی طرح وہ اللہ تعالیٰ کے وجود پر بڑی عظیم دلیل ہے۔دیکھیں:[دلائل الربوبیۃ:ص:۶۸]
    اور یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین نے وجود الٰہی کے اثبات کے لئے دلائل نبوت سے استدلال کیا ہے، جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’هذه طريقة السلف من أئمة المسلمين فى الاستدلال علٰي معرفة الصانع، وحدوث العالم، لأنه إذا ثبتت نبوته بقيام المعجز، وجب تصديقه على ما أنبأهم من الغيوب، ودعاهم إليه من أمر وحدانية اللّٰه تعالٰي وصفاته وكلامه…‘‘
    ’’رب حقیقی کی معرفت اور حدوث عالم پر استدلال کرنے میں یہ مسلمانوں کے آئمۂ سلف کا طریقہ (رہا ہے)،لہٰذا ان غیبیات کے بارے میں ان کی تصدیق کرنا ضروری ہے جن کی انہوں نے لوگوں کو خبر دی ہے اور (اسی طرح) اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی صفات اور اس کے کلام کے ان مسائل کی تصدیق کرنا (بھی) واجب ہے جن کی طرف انہوں نے دعوت دی ہے‘‘
    [درء تعارض العقل والنقل:۸؍۳۵۲]
    خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات اتنی عظیم اور اس قدر بلند و برتر ہے کہ قرآن کریم کی ہر آیت کریمہ بلکہ دنیا کی ہر شیٔ اس کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہے:
    وفي كُلِّ شيئٍ له آيةٌ
    تدلُّ علٰي أنه واحدٌ
    اور ہر چیز ہی اس کی نشانی ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہی تنہا و اکیلا ہے۔
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings