-
Tags: مارچ،قرآن،تجوید
وقف، معنیٰ و مفہوم-ایک تجزیاتی مطالعہ (قسط ثالث) 5.2 فقہ اور اصول فقہ اور فقیہ کا مفہوم:
Meanings of jurisprudence, Principles of jurisprudence & jurist
عمومی طور پر عالمی ممالک اور بالخصوص ہندوستانی قوانین(Indian Laws) کے اندر مذکورہ الفاظ کا استعمال کثرت سے ہوتا ہے ۔ کبھی ’’شریعت‘‘ یا’’ شریعہ قانون‘‘ یا ’’محمڈن قانون‘‘ یا’’ فقہ اسلامی ‘‘وغیرہ تمام الفاظ ایک دوسرے کے مترادف( synonyms) ہیں۔ جیسا کی پہلے واضح کی گیا ۔ قانون کے جانکار اور ہندوستانی عدالتوں(Indian Courts) میں زیر پرکٹس وکیلوں(Advocates) کے لیے ان الفاظ کی باریکیوں کو سمجھنا ضروری ہی نہیں بلکہ بے حد ضروری ہے ۔
فقہ کی لغوی تعریف:
literal meaning of the fiqh OR Jurisprudence
لسان العرب میں ابن منظور رقمطراز ہیں کہ:
’’والفقه فى الأصل ’’الفهم‘‘۔
’’فقہ کے لغوی معنی کسی بات کو جاننے اور سمجھنے کے ہیں‘‘۔
اس مناسبت سے احکامِ شرعیہ کے علم کو بھی فقہ(Jurisprudence) سے تعبیر کیا گیا۔
فقہ کی اصطلاحی تعریف : Definition of the fiqh OR Jurisprudence
فقہ کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی:
’’اَلْعِلْمُ بِالْاَحْكَامِ الشَّرْعِيَّةِ عَنْ اَدِلَّتِهَا التَّفْصِيْلِيَّةِ‘‘
[فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت لابی العلی السہالوی]
وعرفه أبو إسحاق الشيرازي بأنه: ’’علم كل حكم شرعي بالاجتهاد‘‘۔
ترجمہ: ’’تفصیلی دلائل سے شرعی احکام کو جاننے کا نام فقہ ہے‘‘۔
تفصیلی دلائل کا مطلب یہ ہے کہ یہ مسئلہ کس دلیل شرعی پر مبنی ہے، کتاب اللہ پر، سنت رسول ﷺپر، اجماع پر، یا قیاس وغیرہ پر، اسی طرح حکم اور دلیل کے درمیان ارتباط کو جاننا بھی فقہ کہلاتا ہے۔
احکام کے تفصیلی دلائل چار ہیں:
(۱) قرآن پاک (۲) حدیث پاک (۳) اجماع (۴) قیاس ۔ اس کے علاوہ استصحاب یا استحسان، مصالح مرسلہ، عرف عام اور بعض فقہاء کے نزدیک عمل اہل مدینہ اور قول صحابی( The action of the people of Madinah & the saying of the Companions of the Prophet ) بھی شریعت کے اہم مصادر تصور کئے جاتے ہیں ۔
’’شرعی احکام‘‘ سے مکلف کے افعال پر شریعت کی جانب سے جو حکم اور صفت مرتب ہوتی ہے وہ مراد ہے، جیسے کسی عمل کا فرض، واجب، مستحب یامباح یا اسی طرح حرام ومکروہ ہونا۔
5.3 فقیہ شریعت اسلامیہ کے ماہرین علماء اور شرعی احکام و قوانین کا ماہر فقیہ کہلاتا ہے ۔
Literal meaning of jurisprudence as in Arabic dictionary Ibn Manzoor said: ” that The literal meaning of the Fiqh jurisprudence is to know and understand something”.
Accordingly, the knowledge of the Shari’a legislative rulings was also defined as jurisprudence as per Islamic laws .
Fiqh jurisprudence was defined in these words: “Knowledge of all legislative rulings of the Shari’a as derived from their detailed Islamic Evidences.”
derived from their detailed Islamic Evidences. ” mean that the problem is based on the Shariah argument, based on (1) The Holy Quran (2) The Holy Hadith (3 ) Consensus (4 )Qiyas
legislative rulings of the Shari’a the rules of Allah which concern the actions of persons who own themselves bound to obey the law respecting what is required (wajib), sinful (haraam), recommended (mandub), disapproved makroh neutral (mubah)”.
A faqh (plural fuqah, Arabic: فقیہ, pl. فقہاء is an Islamic jurist, an expert in fiqh, or Islamic jurisprudence and Islamic Law.
5.4 اصول فقہ کی تعریف یہ ہے :
’’هوالعلم بالقواعد التى يتوصل بها الي استنباط الاحكام الفقيهة عن دلائلها‘‘
ترجمہ: اصول فقہ ایسے قواعد کے جاننے کا نام ہے کہ جن کے ذریعے سے دلائل کے ساتھ احکام فقیہ تک پہنچنا ممکن ہو۔
The definition of Usul Fiqh (principles of Fiqh): “The principles of jurisprudence is the name of knowing such rules through which it is possible to reach the rulings of the jurisprudence with arguments.”
6. وقف کے اقسام : Types of Waqf
جمہور علماء اور فقہائے کرام کے مطابق بلکہ عالمی قوانین کے مطابق جس میں ہندوستان کا وقف ایکٹ بھی ہے ۔ ان کے مطابق وقف کی دو قسمیں ہیں ۔ بعض فقہاء نے ایک تیسری قسم کا بھی اضافہ کیا ہے جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
-1 وقف خیری (یا وقف عام یا وقف علی اللہ)
Waqf -al- Kheri OR Public Waqf OR Waqf -alal- Allah
اس کی تعریف یہ ہے کہ : ایسا وقف جس کے اصل مال سے حاصل شدہ منافع کو عوام الناس کی فلاح و بہبودی کے خاطر وقف کیا جائے اور مقصد رضائے الہٰی اور ملی و سماجی خدمات انجام دینا ہو ۔ مثلاً مساجد و مدارس کا وقف ، فقراء و مساکین کی فلاح اور دیگر ملی تعلیمی مراکز ،اجتماعی اداروں اور صحی مراکز کے اوقاف شامل ہیں ۔
-2 وقف اہلی (یا وقف ذری یا وقف خاص)
Waqf-alal- Aulad OR Private Particular Waqf
ایسا وقف جس کے اصل مال سے حاصل شدہ منافع کو شروع میں اپنے خاص اہل واقارب یا اپنی اولاد کی فلاح و بہبودی کے خاطر وقف کیا جائے۔ اس مخصوص اولاد کے ختم ہو جانے پر اس وقف کو بعد میں عمومی وقف میں منتقل کر دیا جاتا ہے ۔
-3 وقف مشترک Common Waqf (Public & Private)
ایسا وقف جس میں دونوں مقاصد یعنی وقف کے عام اور خاص مقاصد کو ایک ساتھ جمع کردیا گیا ہو ۔ چنانچہ اس کے اندر وقف الخیری اور وقف اہلی دونوں ہی ایک ساتھ پائی جاتی ہوں اس کو وقف مشترک کہتے ہیں ۔
ملاحظہ:
مطلقاً اگر وقف بولا جائے تو اس سے عام طور پر وقف خیری بالفاظ دیگر وقف عام ہی مراد ہوتا ہے۔
وقف خاص یا وقف اہلی کو عالم اسلام کے بعض ممالک نے اپنے قانون سے ختم کردیا۔ کیوں کہ بعض لوگ اس کا استعمال اپنے وارثین کو وراثت سے محروم کرنے کے لیے غلط طور پر استعمال کرنے لگے۔
Waqf-alal-Aulad is prohibited now in some Islamic Countries due to its misuses like Egypt & Sudan etc.
مصر و سوڈان اور دیگر ممالک کے اندر ایسے معاملات رونما ہونے لگے کہ لوگ اپنی بیوی اور بیٹیوں کو وراثت سے محروم کرنے کے لیے وقف کی دوسری قسم یعنی وقف علی الاولاد کا استعمال کرنے لگے ۔اس سے نظام وقف کو داغدار کیا جانے لگا ۔چنانچہ وہاں کے دستور اور قانون سے اس قسم کو ختم کردیا گیا ۔ جب کہ شریعت اسلامیہ اس کی اجازت دیتی ہے بشرطیکہ اس کا غلط استعمال نہ کیا جائے ۔ بلکہ مقصد شرعی دائرے میں ہو ۔
6.1 ہند وستانی قوانین میں وقف کی انواع: Types of Waqf in Indian Laws
ہندوستان کے وقف ایکٹ 1995 کی دفعہ ( 3r) میں وقف کی تعریف کا ذکر کیا گیا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے واضح کیا ہے ۔ تعریف کے فوراً بعد وقف کی ایک قسم وقف ذری یا اہلی کا ذکر ضمنی طور پر کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ مندرجہ ذیل چار قسم کی جائیداد بھی وقف شمار ہونگی ۔ وقف جائیداد کے احوال و ظروف کے مد نظر ایکٹ کی اس دفعہ کے اندر یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان کا شمار بھی وقف جائیداد میں ہوگا۔
The Waqf Act, 1995, Section 3(r) : Waqf (…) and includes:
“(i ) A waqf by user but such Waqf shall not cease to be A waqf by reason only of the user having cease d irrespective of the period of such cesser;
(ii ) A Shamlat Patti, Shamlat Deh, Jumla Malkkan or by any other name entered in a revenue record;
(iii) “grants”, including mashrat-ul- khidmat for any purpose recognised by the Muslim law as pious, religious or charitable; and
(iv) A waqf-alal-aulad to the extent to which the property is dedicated for any purpose recognised by Muslim law as pious, religious or charitable, provided when the line of succession fails, the income of the Waqf shall be spent for education . development, welfare”.
وقف ایکٹ کے اندر موجود وقف کی تعریف کا گہرائی سے مطالعہ اور وقف ایکٹ کو عملی جامہ پہنچانے والے بیوروکریٹ اور اسلامی اسکالر اس بات سے اتفاق رکھتے ہونگے کہ مذکورہ چار اقسام وقف کی قسمیں نہیں ہیں ۔ بلکہ کچھ مشہور زمانہ مسائل اور اختلافات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ مذکورہ قسم کی جائیداد بھی وقف کی ملکیت کہلائے گی۔
(۱) یعنی کوئی جائیداد وقف نہیں کی گئی مگر اس کا استعمال اگر ایک مدت سے وقف کے مقاصد کے خاطر استعمال میں ہے تو ایسی جائیداد کو اس کے استعمال کی وجہ سے بھی ہندوستانی قانون کے حساب سے وقف جائیداد شمار کیا جائے گا۔ مثلاً کسی جائیداد کا استعمال اگر مسجد کے طور پر ہوتا رہا ہے اور نمازی وہاں ایک مدت سے نماز ادا کرتے رہے ہوں اور صاحب جائیداد نے اس کو وقف نہ بھی کیا ہو تو بھی یہ جائیداد اپنے استعمال کی وجہ سے وقف ایکٹ کے مطابق وقف کہلائے گی ۔ اگر استعمال کرنے والے لوگ کسی بھی مدت سے اگر نہ بھی رہیں تو استعمال کرنے والے لوگوں کے نہ رہنے کی وجہ سے بھی وہ جائیداد وقف ہی شمار ہوگی کیونکہ اس کا استعمال ایک مدت تک وقف کے مقاصد کے لیے ہوتا رہا ہے ۔
(۲) اسی طرح گاؤں اور دیہی علاقوں میں موجود ایسی جائیدادیں جن کا اندراج روینو ریکارڈ(revenue record) میں شاملات پٹی، شاملات دیہ اور جملہ مالکان وغیرہ کے الفاظ سے موجود ہے ۔ ان کو بھی وقف جائیداد ہی مانا جائے گا۔ دراصل ایسے معاملات میں بارہا ایسا ہوا کہ پنچایت اور وقف بورڈ دونوں ہی ملکیت کو لے کر آمنے سامنے آجاتے ہیں ۔ بالخصوص ہریانہ کے پس منظر میں اگر بات کریں تو وقف بورڈ The Waqf Act, 1995 کی مذکورہ دفعہ( 3r) کے تحت دعویداری کرتے ہیں جبکہ گاؤں کی پنچایتیں مندرجہ ذیل قوانین کی مختلف دفعات کے تحت اپنا دعوائے ملکیت پیش کرتی ہیں۔
“Haryana Dholidar, Butimar, Bhondedar and Muqararidar (Vesting of Proprietary Rights) Act. 2010”
“The Punjab Land Revenue Act, 1887”
“The Punjab Village Common Land (Regulation) Act, 1961”
اس طرح دونوں ملکیت کا دعویٰ کرنے لگتے ہیں اور متنازع زمین کا دعویٰ عدالتوں کے چکر کاٹنے لگتا ہے ۔ ان معاملات کے مد نظر وقف ایکٹ 1995 کے اندر اس بات کی وضاحت کردی گئی کہ جمع بندی اور دیگر روینو ریکارڈ میں اگر کوئی جائیداد ان مذکورہ ناموں سے درج ملتی ہے تو اس کا مالک وقف بورڈ ہوگا اور وہ جائیداد وقف جائیداد کہلائے گی۔
(۳) اسی طرح اگر کوئی زمین یا جائیداد کسی مذہبی خدمات کے خاطر شرعی مقاصد مثلاً کسی بھی فلاح وبہبود یا مذہبی مقاصد کے خاطر ہدیہ میں دی جائے تو بھی وہ جائیداد وقف ہی ہوگی ۔ تجربات کی روشنی میں اس بات کو کہا جا سکتا ہے کہ وقف ایکٹ کے اندر یہ ایک قابل تعریف اضافہ ہے ۔
(۴) وقف ایکٹ کے اندر چوتھی اور اہم بات وقف اہلی کی تعریف اور اس کی وضاحت کی گئی کہ اولاد یعنی موقوف علیہ کے ختم ہوجانے کے بعد اس وقف سے حاصل شدہ آمدنی کا استعمال کہاں کیا جائے گا ۔ چنانچہ شریعت اسلامیہ کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی بھی جائز تعلیمی، تعمیری اور فلاح و بہبودی کے کام میں استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
7.0 وقف کے اغراض و مقاصد:: Purposes of Waqf in Islamic Law
شریعت اسلامیہ کی نظر میں نظام وقف کے بے شمار ملی و سماجی فوائد ہیں ۔ وقف سسٹم( Waqf Institutions ) نے کسی بھی ملک وملت کی تعمیر و ترقی( Devlopment of country and societies as well)میں نمایاں کردار ادا کیا ہے ۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے ۔ اسلام کے ابتدائی دور عہد نبوی سے لے کر آج تک بے شمار اسکول (Schools)، مدارس(Madaris) و مساجد( Masajid)کے ساتھ وقف مکاتب(Makatib) کی بنیاد بھی ڈالی گئی ۔ بیمارستان( Hospital)اور چیریٹیبل ڈسپنسریز( Charitable Dispensary)، مسافر خانے (Musafirkhana) ، یتیم خانوں( Shelter Houses for Orphans)کے علاوہ بہت سے ملی ، سیاسی ، سماجی اور تعلیمی ادارے(Education Institutions) وقف کے ذریعہ قائم کئے گئے ۔ وقف کے مقاصد میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں :
-1 عام مقاصد(Common Purposes): امت کے عمومی فائدے کے خاطر اپنے مال کو اللہ کی رضامندی اور اس کی تعلیمات کے مطابق آپسی تعاون وہمدری، سماج میں الفت و محبت اور انسانیت کے عمومی مقاصد کے خاطر اپنی جائیداد کو وقف کرنا ۔
-2 خاص مقاصد( Particular Purpises ): کسی بھی شرعی خاص مقاصد کے تحت اپنی جائیداد کو وقف کرنا ۔ مندرجہ ذیل اوقاف کے مقاصد میں شمار کئے جا سکتے ہیں ۔
دینی اغراض (Religious Purpose): مثلاً رضائے الہٰی کے حصول کی خاطر مذہبی اور دینی مقاصد کے لئے وقف کرنا جیسے مساجد و مدارس اور تعلیمی اداروں کا وقف۔ آخرت کے حصول اور صدقۂ جاریہ کے طور پر انسان اپنی جائیداد کو وقف کرتا ہے ۔
ملی و سماجی مقاصد(Social Purposes ): شوسل اور سماجی خدمات کے خاطر وقف جیسے مسافر خانہ ، یتیم خانہ اور ثقافتی مراکز( Cultural Centers)قائم کرکے وقف کرنا تاکہ سماج کے اندر موجود مختلف غریب و مسکین لوگوں کو سہارا مل سکے اور سماج اور سوسائٹی کو ترقی اور اصلاح کے راستے پر گامزن کیا جا سکے ۔
فطری اسباب(Natural Purpose ): خاص مقاصد میں سے یہ بھی ہے کہ انسان اپنی جائیداد کو فطری طور پر وارثین کے ناجائز تصرف سے بھی بچانا چاہتا ہے ۔ چنانچہ اس مقصد کے خاطر بھی’’ وقف علی الاولاد ‘‘کا طریقہ اختیار کرتا ہے ۔
انسان کسی بھی مباح اور شریعت اسلامیہ میں جائز مقاصد( any other purposes recognised by Muslim Law) کے خاطر وقف کر سکتا ہے ۔
جاری ہے……
٭٭٭