Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • کیا چار فقہی مذاہب سے خروج گمراہی ہے؟ ایک مغالطے کا جائزہ

    ان دنوں بعض حضرات کی طرف سے یہ بات سننے میں آئی ہے کہ ہر مسلمان کے لیے چار فقہی مذاہب: حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی میں سے کسی ایک کی پیروی کرنا لازم ہے اور انھیں چھوڑنا گمراہی اور ضلالت ہے۔
    اس سلسلے میں بعض اقوال بھی پیش کیے جاتے ہیں جیسا کہ ایک قول معروف حنفی عالم علامہ طحطحاوی رحمہ اللہ کا ہے:
    ’’وهذه الطائفة الناجية قد اجتمعت اليوم فى مذاهب أربعة، وهم الحنفيون والشافعيون والمالكيون والحنبليون رحمهم ﷲ، ومن كان خارجا عن هذه الأربعة فى هذا الزمان فهو من أهل البدعة والنار‘‘
    [حاشیہ الطحطاوی :۴؍۱۵۳]
    ’’جماعت ناجیہ آج کل مذاہب اربعہ میں جمع ہو چکی ہے اور وہ حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی ہیں۔ جو اس زمانے میں ان سے الگ ہو گا وہ ناری اور بدعتی ہے‘‘
    اسی طرح امام ابن رجب رحمہ اللہ کے ایک رسالہ ’’الرد علی من اتبع غیر المذاہب الاربعہ‘‘ کا ذکر کیا جاتا ہے، نیز معروف سعودی عالم شیخ صالح الفوزان کے ایک فتوی کا بھی حوالہ دیا جا رہا ہے۔
    تو حقیقت بات یہ ہے کہ جلد بازی میں ان اکابر علماء کے اقوال کا مفہوم سمجھنے میں غلطی کی جا رہی ہے یا انہیں اپنے دل پسند معنے کے مطابق نشر کیا جا رہا ہے جس کی مختصر وضاحت پیش خدمت ہے۔
    ۱۔ ایک مسلمان کے لیے اصل الاصول قرآن وسنت کی اتباع ہے جن کو صحابہ وتابعین کے منہج ومسلک کے مطابق سمجھنا لازم ہے۔ اور یہ قید اس لیے ضروری ہے کہ مسلمان بدعتی فرقوں کے استدلالات اور شبہات سے بچ سکے اور خواہشات کی پیروی سے محفوظ رہے۔
    ۲۔ اصل مقصود چونکہ حق کی اتباع ہے، اس لیے ہمارے اوپر پیغمبر ﷺکے سوا کسی فرد کی حتمی اطاعت لازم نہیں کی گئی۔ اور بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کی تقلید لازم اور ضروری ہے، اس اشکال کا تذکرہ کرتے ہوئے معروف حنفی عالم مولانا بحر العلوم عبد العلی بہاری شرح مسلّم الثبوت میں فرماتے ہیں :
    ’’ثم إن من الناس من حكم بوجوب الخلو من بعد العلامة النسفي، واختتم الاجتهاد به، وعنوا الاجتهاد فى المذهب، وأما الاجتهاد المطلق فقالوا: اختتم بالأئمة الأربعة حتي أوجبوا تقليد واحد من هٰؤلآء على الأمة، وهذا كله هوس من هوساتهم، لم يأتوا بدليل، ولا يعبأ بكلامهم، وإنما هم من الذين حكم الحديث أنهم أفتوا بغير علم فضلوا وأضلوا، ولم يفهموا أن هذا إخبار بالغيب فى خمس لا يعلمهن إلا اللّٰه‘‘
    [فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت: ۲؍۴۳۱]
    پھر بعض لوگ ایسے ہیں جنہوں نے قطعی فیصلہ کر دیا ہے کہ علامہ نسفی کے بعد زمانہ مجتہد سے خالی ہے، جس اجتہاد کو علامہ نسفی پر ختم کرتے ہیں وہ اجتہاد فی المذہب ہے، اجتہاد مطلق کے متعلق کہتے ہیں کہ ائمہ اربعہ پر ختم ہو چکا ہے، یہاں تک کہ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید واجب قرار دیتے ہیں، یہ سب ان کی ہوسوں میں سے ایک ہوس ہے، اس پر کوئی دلیل نہیں اور نہ ان کا کلام اعتبار کے لائق ہے۔ یہ ان لوگوں سے ہیں جن کے بارے میں حدیث آئی ہے کہ انھوں نے جانے بوجھے بغیر فتوے دیے، سو خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا، یہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ اس قسم کی باتیں ان پانچ باتوں میں غیب گوئی ہے جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
    ۳۔ حق جس جماعت کے ساتھ ہو گا، ہم حق پر مبنی اسی موقف کی تائید کریں گے خواہ وہ مذاہب اربعہ کے اندر کسی مسلک میں ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اہل علم کو بعض فقہی مذاہب کی طرف نسبت کے باوجود جب کبھی انھیں حق دوسرے مسلک میں نظر آیا تو انھوں نے اس کی اتباع لازم سمجھی اور اپنا مسلک چھوڑنے میں دیر نہیں لگائی۔
    جیسا کہ امام طحاوی حنفی کے متعلق آتا ہے ایک مرتبہ ان کا ایک فتوی سن کر کسی نے کہا: جو آپ فرما رہے ہیں، یہ امام ابو حنیفہ کا قول تو نہیں ہے! امام طحاوی نے کہا: میں کون سا امام ابو حنیفہ کے ہر قول کو مانتا ہوں! اس نے کہا: میں تو آپ کو امام ابو حنیفہ کا مقلد سمجھتا تھا۔ امام طحاوی نے جواب دیا: ’’تقلید تو کوئی متعصب اور بے وقوف انسان ہی کیا کرتا ہے‘‘۔
    امام طحاوی کا یہ جملہ مصر میں بہت معروف ہوا جسے لوگوں نے یاد کیا اور اسے اکثر لوگ دہرایا کرتے تھے۔ [لسان المیزان:۱؍۲۸۰]
    ۳۔ اس امر کی مثالیں بے شمار ہیں کہ اہل علم ہمیشہ حق کی اتباع کرتے رہے اور فقہی مسائل میں مذاہب اربعہ کی مخالفت کو انھوں نے کبھی گمراہی سے تعبیر نہیں کیا۔ مختلف مسائل میں مسالک اربعہ کی مخالفت کی کئی مثالیں بعض دیگر علماء کی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے ہاں بھی ملتی ہیں۔ اب کیا کوئی شخص امام ابن تیمیہ پر یہ فتوی لگائے گا کہ انھوں نے مذاہب اربعہ سے ہٹ کر موقف اپنایا ہے، اس لیے گمراہی کا ارتکاب کیا ہے؟!
    اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ پھر ان اہل علم کے اقوال کا مطلب کیا ہے جو مذاہب اربعہ سے خروج کی مذمت کرتے اور اسے گمراہی کہتے ہیں؟
    تو یاد رکھئے! ان اکابر کا مقصود صرف یہ ہے کہ کوئی شخص بھی مسالک اربعہ کے ہاں طے شدہ شرعی اصول اور ان کے بنیادی مصادر سے ہٹ کر راستہ اختیار کرے تو وہ گمراہ ہو گا۔ اور اس رائے سے ان کا مقصود اہل سنت کے مخالف شیعہ خوارج اور دیگر گمراہ فرقوں کی اتباع سے روکنا ہے۔
    امام محمد گوندلوی رحمہ اللہ مذکورہ بالا ائمہ کرام کے اقوال کہ مذاہب اربعہ سے خروج گمراہی ہے، کا مطلب بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’الإصلاح‘‘ میں فرماتے ہیں:
    ’’ان (علماء ) کا یہ قول صرف اہل مذاہب کے لیے ہے۔ یعنی جو قرآن، سنت، اجماع اور قیاس جلی کے مجموعے اہل سنت کے تیار ہوئے ہیں قیاسات خفیہ کے علاوہ، وہ صرف چار رہ گئے ہیں، جو باقی ہیں وہ اہل سنت کے مجموعے نہیں، جیسے قیاسات زیدیہ، قیاسات اثنا ء عشریہ، قیاسات خوارج وغیرہ، یہ باطل ہیں۔اہل حدیث تو ان تمام مجموعوں سے استفادہ کرتے ہیں جو اہل سنت کے افراد نے تیار کیے ہیں، جو بعد میں مذاہب اربعہ میں پائے جاتے ہیں‘‘۔
    یعنی جو گروہ یا فرد اہل سنت کے اصول اربعہ: قرآن۔ سنت، اجماع اور قیاس کی پابندی کرے اور ائمہ اہل سنت کے تیار کردہ فقہی مصادر سے استفادہ کرے اس پر یہ فتوی نہیں لگایا جائے گا کہ اس نے مذاہب اربعہ سے خروج کر کے گمراہی اختیار کی ہے۔ اس میں فروعی مسائل میں اختلاف کو شامل کرنا بہت بڑی نادانی ہے جس کی زد کئی اکابر امت پر بھی پڑتی ہے۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings