Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا

    جسم و بدن کے ساتھ روح،اخلاق،سوچ اور عمل کا پاکیزہ ہونا بھی ضروری ہے،اسلام نے ظاہری نفاست سے زیادہ قلب وروح کی طہارت پر زور دیا ہے،اگر انسان کا باطن نفاست وطہارت سے معمور ہوجائے تو جسم و بدن بھی اس کے تابع ہوجائیں گے،انسان کی باطنی حالت پر گناہوں کا میل تہ در تہ جمتا رہتا ہے،فرمان رسول ﷺکے مطابق ہر گناہ دل پر ایک سیاہ نکتہ چھوڑجاتا ہے،وہ نکتہ توبہ سے دھل جاتا ہے،جب اس دھبے کی توبہ سے دھلائی نہیں ہوتی تو وہ بڑھتے اور پھیلتے جاتا ہے،سلسلہ آگے بڑھتا ہے اور آدمی فسق وفجور کے دلدل میں دھنس کر پوری طرح اخلاقی موت مرجاتا ہے۔
    دلوں کے احوال کا کثیف عکس سماج ومعاشرہ پر لازماً نظر آتا ہے،یہ حقیقت ہے کہ سماج کی موجودہ اخلاقی حالت انتہائی دگرگوں ہے،اس وقت سماج ومعاشرے میں جنسی بے راہ روی اور اخلاقی انارکی عروج پر ہے،زنا اور بدکاری کا کلچر روز افزوں ہے،جوانوں کی حالت تو پہلے سے غیر تھی،’’پورن انڈسٹری‘‘کی بدولت کم عمر بچوں میں بھی یہ مرض پھیلتا جارہا ہے، بارہ اور چودہ سال کے بچے بھی یہ روگ پال کر من کی مراد پانے کے لیے شکار کی تلاش میں سرگرداں ہوتے ہیں،شرمناک واقعات اور حیا سوز واردات کا ایک ناخوشگوار سلسلہ ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے،پردے کے پیچھے کا اخلاقی فساد اب منظر عام پر آیا چاہتا ہے،حیا و شرم گئے زمانے کے آثار بنتے جارہے ہیں،شرافت و نجابت کا دائرہ سمٹتا جارہا ہے۔
    تعلیم گاہیں اور دین بیزار ماحول دانستہ نادانستہ زنا کلچر کے فروغ میں معاون ثابت ہورہا ہے،تعلیم اور تربیت کی جلو میں مخرب اخلاق عوامل زندگی کی پہنائیوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں،تعلیمی اداروں کے کیمپس میں جہاں مخلوط تعلیم ہورہی ہو وہاں تعلیم اور عشق ومحبت کے چونچلے لازم و ملزوم ہوتے جارہے ہیں،بعض اوباش قسم کے عناصر تو اپنے اسی بدنام زمانہ شوق کے لیے تعلیم کی ڈور سے بندھے بھی رہتے ہیں،وہ کتاب علم سے زیادہ کتاب عشق کی ورق گردانی کرتے ہیں،تعلیم گاہیں جب پاکیزگی کی امین نہیں رہ گئیں تو دوسرے مقامات اور مواقع پر پہرہ کیونکر بٹھایا جاسکتا ہے؟کبھی کبھار جرأتیں سارے حدود توڑ کر کیمپس میں برسر عام نہ صرف دھول دھپا بلکہ بوس وکنار تک پہنچ جاتی ہیں،کونوں کھدروں میں چھپ کر جوڑے عشق لڑارہے ہوتے ہیں،حیا وشرم اپنا سر پیٹ کر رہ جاتی ہے،اب کمسن طلبہ پر اس کے کیا منفی اثرات مرتب ہونگے؟اس کی پرواہ کون کرے گا؟اسکول کے پرگراموں میں طالبات کا مردوں کے سامنے پرفارمنس کرنا،تقریری مظاہرہ کرنا،فلمی ایکٹنگ کے ذریعے مقابلے پر حاوی ہونے کی کوشش کرنا،اسی غیراخلاقی ماحول کی آبیاری کرتا ہے،تعلیم گاہیں صرف تعلیم کی بہتری کو ترجیحات میں شامل رکھتی ہیں،خواہ اس کے لیے تربیت و تزکیہ کا جنازہ کیوں نہ نکل جائے،نئی روشنی نے سرپرستوں کو اس طرح مرعوب کیا ہے کہ ایجوکیشن اور ترقی کے نام پر سب گوارہ کرلیا گیا ہے۔
    یہ تو بات تھی تعلیم گاہوں کی،قوم مسلم اور کہاں کہاں رسوا ہورہی ہے؟یہ ایک طویل داستان ہے،جاب اور نوکری کی آڑ میں جنسی بے راہ روی کا کھیل شباب پر ہے،حوا کی بیٹی کہیں ماتحتی کے سل کے نیچے پیسی جاتی ہے تو کہیں جاب کے چھوٹ جانے کی قیمت متاع عصمت کی شکل میں ادا کرتی ہے،الگ الگ صورت حال میں الگ الگ انداز سے جنس کی ہری بھری چراگاہ آوارہ طبعیتوں کی تفریح گاہ بن چکی ہے،کہیں شادی کی تاخیر پر منہ زور جوانی بہر تسکین راستہ ڈھونڈ لیتی ہے،کہیں شادی سے مایوسی اس سیاہ رات کو جنم دیتی ہے جس کی صبح جلدی طلوع نہیں ہوتی،بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی ہے،موبائل پر غیر اخلاقی مواد نے جذبوں میں جو ہیجان برپا کیا ہے،اس نے ساری حدوں کو پھلانگ دیا ہے،زیر زمین کیسی کیسی قیامتیں گزر جاتی ہیں؟خیر سے اس کے شور کو پوری قوت سے دبادیا جاتا ہے،رشتوں کی حرمتیں بھی محفوظ نہیں رہتی ہیں،کمسن بچیاں اور بڑے بوڑھے بھی خبروں کی سرخیوں میں نظر آتے ہیں۔
    موبائل میں ایک ایپ اگر جنسی اشتعال دلاتا ہے تو دوسرا ایپ بھی لانچ ہوا ہے جو دو تشنہ لب جوڑوں کے لیے عشق ومحبت کے مواقع بہم پہنچاتا ہے،جی ہاں ایسا ایپ جس میں ’’مردان شہوت‘‘کے لیے ان کے مثل صنف مخالف تک پہنچنے کا سراغ ہوتا ہے،یعنی دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی،پہلے چیٹنگ ہوتی ہے،پیام رسانی ہوتی ہے، پھر فون پر بات ہوتی ہے،آخر میں ڈیٹنگ ہوتی ہے،اس طرح شر کا دھارا معاشرے میں بڑی تیزی سے بہہ رہا ہے،یہ ’’سلسلۂ جنبانی‘‘ کبھی نئی مصیبت بھی کھڑی کردیتاہے،آدمی بلیک میلروں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے،ان کے پاس سکرین شاٹس ہوتے ہیں،بلیک میلنگ کا سلسلہ چلتا ہے،سفید پوشوں کو کنگال کرکے چھوڑا جاتا ہے،انکار کرنے پر تصویریں وائرل کردی جاتی ہیں،شرفاء کہیں منہ دکھانے کے لا ئق نہیں رہ جاتے،سائبر کرائم میں اس قسم کے اَن گنت واقعات درج ہیں۔
    جدید دور نے جنسی آوارگی کو تحفظ فراہم کیا ہے،چند بیانیوں سے زنا جیسے قبیح جرم پر ملمع کاری کی جاتی ہے،اسے فرد کی آزادی اور ضرورت سے تعبیر کیا جاتا ہے،اس کی شناعت کو کم کرکے دکھایا جاتا ہے،جابجاچھوٹے بڑے ہوٹل ملنے کے مواقع بہم پہنچاتے ہیں،ہوٹل کلچر بھی دراصل زناکلچر کا تقاضا ہے،پارک اور ساحل سمندر بھی خوب دعوت نظارہ دے رہا ہوتا ہے،شرفاء وہاں پہنچنے کے بعد وہاں سے دُم دبا کے بھاگنے میں عافیت خیال کرتے ہیں،بہر حال جنسی بے راہ روی اور شہوانی ماحول کی تباہ کاریاں عروج پر ہیں،پورن انڈسٹری نے سماج کو ایک شہوانی آتش فشاں میں تبدیل کردیا ہے،اربوں روپے کمائے جارہے ہیں،الغرض انسانیت فطرت کے جادۂ مستقیم سے ہٹ چکی ہے جس کے ہولناک نتائج سے انسانیت دوچار ہورہی ہے،خاندانی نظام تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔
    سوال یہ ہے کہ ایسا آخر کیسے ہوگیا؟کس نے فحاشی کے چوپٹ دروازے سماج پر کھول دئے؟کس نے بے حیائی اور بے شرمی کے کھیت کو کھاد فراہم کی؟
    آج دنیا بڑھتے ہوئے فحاشی کے سیلاب کو روکنے میں ناکام ہوچکی ہے،قوانین اور سزائیں بے اثر ثابت ہوتے جارہے ہیں،سچ کہوں تو انسانی زندگی کو اس بحران کا سامنا اس لئے کرنا پڑرہا ہے کہ انہوں نے ان تعلیمات وہدایات کو پس پشت ڈال دیا ہے جو زنا و بدکاری کے چور دروازوں کو بند کرتے ہیں،یاد کیجئے!قرآن کا اسلوب کتنا متأثر کن ہے؟وہ یہ نہیں کہتا ہے کہ زنا نہ کرو بلکہ یہ کہتا ہے کہ زنا کے قریب بھی مت جاؤ،اس اسلوب کا مطلوب یہ ہے کہ وہ تمام اسباب و ذرائع جو زنا کی طرف لے جاتے ہیں،ان سے بھی دور رہو،ظاہر سی بات ہے کہ مقدمات زنا سے اجتناب ہی اصل سد باب ہے،بے پردگی،مردوزن کااختلاط،نظربازی،تانک جھانک،لچکدار آواز،عورت کا زیورات بجاتے ہوئے چلنا،خوشبو لگا کر باہر نکلنا،عورت اور مرد کی خلوت،عورت کا تنہا سفر کرنا،یہ تمام چیزیں محرکات زنا ہیں جو ممنوع ہیں،یہ زنا کی طرف لے جانے والے زینے ہیں،یہ خرابیاں بھی اگر معاشرے میں موجود ہیں تو’’العينان تزنيان‘‘کہہ کر ایک اضافی انتظام اور کردیا ہے،یعنی قصد وارادہ سے دیکھنا بھی زنا ہے،آگے بڑھ کر یہ بھی کہا کہ’’لا تتبع النظرة النظرة، فإن لك الأولي وليست لك الآخرة‘‘ یعنی ایک اتفاقی نگاہ کے بعد قصد وارادہ سے کسی اجنبیہ کو نہ دیکھو کیونکہ تمہارے لیے پہلی نگاہ معاف ہے دوسری نہیں،اسلام نے جو بھی احتیاطی تدابیر بتلائی ہے،ان پر عمل سے جنسی بے راہ روی سے پاک ماحول کی آبیاری ہوتی ہے،آج بھی جن مسلم ممالک میں حجاب پر عمل ہے وہاں جنسی جرائم برائے نام ہیں،دوسرے جرائم کا گراف زیادہ ہے لیکن جنسی اباحیت اور اخلاقی انارکی بہت کم ہے،اس کا عملی مظاہرہ دور رسالت ﷺاور مابعد کے ادوار میں دیکھا جاسکتا ہے،یہ اسی اخلاقی تربیت کا نتیجہ تھا کہ صحابیات اس طرح سمٹ کر راستہ چلتی تھیں کہ ان کے دوپٹے دیواروں میں پھنس جایا کرتے تھے،نکڑوں میں بیٹھ راہ گیر خواتین کو گھورنے والا کوئی نہیں تھا،پبلک مقامات پر دور دور تک کہیں کوئی مردوزن کا اختلاط نہیں تھا،پورے دور رسالت ﷺمیں جنسی واردات کے صرف اکا دکا کیس آئے تھے،کرائم کا لیول زیرو تھا،جانے انجانے میں گناہ ہوا بھی تو دربار رسالتﷺ میں کھڑے ماعز اسلمی’’ طہرنی یا رسول اللّٰہ ﷺ‘‘پر مصر تھے،یہ وہی اخلاقی نسخۂ کیمیا تھا جس نے انسانوں کے اندر جنس وشہوت کے تقاضوں کو پابجولاں کردیا تھا،افسوس ان مسلمانوں پر ہے جو اسلامی تعلیمات کے اس عظیم پہلو کا ادراک نہیں رکھتے اور ان کے اپنے گھروں کا لائف اسٹائل غیروں جیسا ہے،ان کو دیکھ کر شکوہ زبان پر آجاتا ہے۔
    ناز کیا اس پر جو بدلا ہے زمانے نے تمہیں
    مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں
    ہم اس نسخۂ کیمیا سے محروم ہوچکے ہیں جس نے ماضی میں سماج کو جنسی انارکی سے پاک کردیا تھا،صنعاء سے حضرموت تک عورت تن تنہا سفر کرتی تھی لیکن اس کی عزت وناموس پر کوئی نگاہ غلط انداز اٹھانے والا نہیں تھا،آج دنیا کی بربادی کے ہم خود قصور وار ہیں،ہم بھی ہوا کے دوش پر بہہ رہے ہیں،ہم نے اسلام کے حیاء وشرم کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے،اس لئے دنیا ہمارے خیر سے نابلد ہے،ہم نے ہیروں پر خزف ریزوں کو ترجیح دی ہے،اسلام کے پاسبانوں کی نظر میں خود اسلام اجنبی بن چکا ہے،سب سے پہلے وقت کے اہل ایمان کو اسلام کے شرم وحیاء کی تعلیمات سے بہرہ مند ہوکر عملًا اس کی برکات سے دنیا کو روشناس کرانا ہوگا،اسلام کے حیرت انگیز نظام تزکیہ اور اسلوب تربیت سے دنیا کو آشنا کرنا ہوگا،یہ دعوت دین کے اس تدریجی عمل کا نقطۂ آغاز ہے جو تبدیلی واصلاح کے روشن شاہراہ تک جاتا ہے،جس طرح اسلام کے عدل وانصاف اور مساوات کی تعلیمات نے دلوں کو مسخر کیا تھا بعینہٖ حجاب وحیاء کی تعلیمات دلوں کو فتح کریں گی کیونکہ دنیا میں جنسی اباحیت کا خاتمہ انہی ہدایات سے ممکن ہے۔
    تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا
    ورنہ گلشن میں علاج تنگئی داماں بھی ہے
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings