Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • زانیہ حاملہ کی زناکرنے والے کے ساتھ شادی (قسط اول)

    حاملہ سے شادی کی ممانعت اور اس کی حکمت وعلت:
    شریعت کا یہ جو عام اصول ہے کہ حاملہ عورت سے شادی ناجائز ہے، تو اس کے پیچھے حکمت وعلت یہ ہے کہ اگر حاملہ عورت سے وطی وہمبستری کی جائے تو نطفہ وخون کا اثر بچے پر پڑتا ہے، اب یہ نطفہ ڈائریکٹ بچہ پر اثرانداز ہوتا ہے یاماں کے جسم وخون میں اثرانداز ہونے کے بعد بچے پر اثر ڈالتا ہے ، یہ اللہ ہی بہترجانتاہے لیکن حدیث سے اتنا توطے ہے کہ حاملہ کے ساتھ وطی وہمبستری کرنے پراس کے حمل پر نطفہ وخون کااثر ہوتا ہے ۔
    چنانچہ اللہ کے نبی ﷺکا فرمان ہے:
    {لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْقِيَ مَائه زَرْعَ غَيْرِهِ يَعْنِي إِتْيَانَ الْحَبَالَي}
    ’’اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لانے والے کسی بھی شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے سوا کسی اور کی کھیتی کو سیراب کرے ، آپﷺ کا مطلب حاملہ لونڈی سے جماع کرنا تھا ‘‘
    [سنن أبی داؤد ،رقم ۲۱۵۸ وحسنہ الالبانی]
    شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اس حدیث سے استدال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
    ’’ومن فوائد الحديث: ’’الإشارة إلى أن الجماع يزيد فى الحمل، لقوله: يسقي ماء ه زرع غيره، ومعلوم أن الماء إذا سقي به الزرع فإن الزرع ينمو ويزداد‘‘
    اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ:’’ دروان حمل ہمبستری سے حمل بڑھتا ہے ، کیونکہ اللہ کے نبی ﷺ کے الفاظ ہیںدوسرے کی کھیتی کو سیراب کرے اور یہ بات معلوم ہے کہ پانی سے جب کھیتی کو سیراب کیا جاتا ہے تو کھیتی کی نشو نما ہوتی ہے اور وہ بڑھتی ہے‘‘
    [فتح ذی الجلال والإکرام بشرح بلوغ المرام ط المکتبۃ الإسلامیۃ ، ۵؍۱۲۹]
    امام ابن القیم رحمہ اللہ نے بھی یہی بات کہی ہے ، لکھتے ہیں:
    ’’ومعلوم أن الماء الذى يُسْقي به الزرع يزيد فيه، ويتكوّن الزرع منه‘‘
    ’’اور یہ بات معلوم ہے کہ جس پانی سے کھیتی کو سیراب کیا جاتا ہے اس سے کھیتی میں اضافہ ہوتا ہے اور کھیتی اس سے پھلتی پھولتی ہے‘‘[تہذیب سنن أبی داؤد،۱؍۴۶۰]
    ایک دوسری حدیث ہے:
    عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ :’’عَنِ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ أَتَي بِامْرَأَةٍ مُجِحٍّ عَلٰي بَابِ فُسْطَاطٍ، فَقَالَ: لَعَلَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُلِمَّ بِهَا؟ فَقَالُوا: نَعَمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَلْعَنَهُ لَعْنًا يَدْخُلُ مَعَهُ قَبْرَهُ، كَيْفَ يُوَرِّثُهُ وَهُوَ لَا يَحِلُّ لَهُ، كَيْفَ يَسْتَخْدِمُهُ وَهُوَ لَا يَحِلُّ لَهُ‘‘
    سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ :’’نبی ﷺ( ایک غزوہ کے موقع پر )ایک خیمہ کے دروازے پر گزرے اور وہاں ایک (حاملہ لونڈی) عورت کو دیکھا کہ قریب جننے کے ہے تو آپﷺ نے فرمایا: کہ شاید وہ شخص اس سے جماع کا ارادہ رکھتا ہے۔ (یعنی جس کے پاس ہے) لوگوں نے کہا: ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے چاہاکہ اس کو ایسی لعنت کروں جو لعنت قبر تک اس کے ساتھ رہے ، وہ کیونکر اس لڑکے کا وارث ہو سکتا ہے حالانکہ وہ اس کو حلال نہیں ! اور اس لڑکے کو غلام کیسے بنا دے گا حالانکہ وہ اس کو حلال نہیں !‘‘
    [صحیح مسلم ،رقم ۱۴۴۱]
    امام ابن القیم رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
    يَعْنِي:’’أَنَّهُ إِنِ اسْتَلْحَقَهُ وَشَرِكَهُ فِي مِيرَاثِهِ، لَمْ يَحِلَّ لَهُ، لِأَنَّهُ لَيْسَ بِوَلَدِهِ، وَإِنْ أَخْذَهُ مَمْلُوكًا يَسْتَخْدِمُهُ لَمْ يَحِلَّ لَهُ لِأَنَّهُ قَدْ شَرِكَ فِيهِ لِكَوْنِ الْمَائِ يَزِيدُ فِي الْوَلَدِ‘‘
    یعنی :’’اس حاملہ عورت کے حمل سے جو بچہ پیدا ہوگا اگر اس نے اسے اپنا بیٹا اور وارث بنالیا تو یہ اس کے لیے حلال نہیں ہے کیونکہ یہ اس کا بچہ نہیں ہے (اس لیے کہ لونڈی اس کی ملکیت میں آنے سے قبل ہی حاملہ تھی )، اور اگر اس نے اس بچے کو غلام اور اپنا خادم بنالیا تو یہ بھی اس کے لیے جائز نہیں کیونکہ (اس کی ماں سے ہمبستری کے بعد ) اس بچے میں اس کا خون بھی شامل ہوگیا ہے ، اس لیے کہ حاملہ سے وطی وہمبستری کرنے کے بعد نطفہ حمل میں شامل ہوتا ہے‘‘
    [زاد المعاد، ن مؤسسۃ الرسالۃ:۵؍۱۴۲]
    ایک دوسری کتاب میں امام ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
    ’’ وقد دلَّت المشاهدةُ علٰي أنَّ الحامل إذا وُطِئت كثيرًا جاء الولد عَبْلًا ممتلئًا، وإذا هُجِر وطؤها جاء الولد ضئيلًا ضعيفًا ‘‘
    ’’ اور مشاہدہ بتلاتا ہے کہ جب حاملہ سے بکثرت جماع کیا جائے تو بچہ صحت مند اور ہرا بھرا پیدا ہوتا ہے، اور جب حاملہ سے ہمبستری ترک کردی جائے تو بچہ کمزور ونحیف پیدا ہوتاہے ‘‘
    [التبیان فی أیمان القرآن – ط عطاء ات العلم: ۱؍ ۵۳۸]
    امام ابن القیم رحمہ اللہ امام احمد رحمہ اللہ سے نقل فرماتے ہیں:
    ’’ لأنَّ الوطئ يزيد فى خِلْقَة الولد، كما قال الإمام أحمد: الوطء يزيد فى سمع الولد وبصره‘‘
    ’’ حاملہ سے ہمبستری بچے کی صحت میں اضافہ کرتی ہے جیساکہ امام احمد رحمہ اللہ نے کہا کہ:دوران حمل ہمبستری سے بچے کی سماعت اور بصارت مضبوط ہوتی ہے ‘‘
    [التبیان فی أیمان القرآن :۱؍۵۳۶]
    امام ابن القیم رحمہ اللہ نے ماقبل میں مذکور سنن ابی داؤد کی حدیث کو امام احمد رحمہ اللہ کے قول کی دلیل قرار دیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
    قال الإمام أحمد: ’’الوطئ يزيد فى سمعه وبصره‘‘۔ وقد صرَّح النبيُّ صلى اللّٰه عليه وسلم بهذا المعني فى قوله: ’’لا يحلّ لرجلٍ أن يسقي مائَ ه زرعَ غيرِه ۔ ومعلوم أن الماء الذى يُسْقي به الزرع يزيد فيه، ويتكوّن الزرع منه ‘‘
    امام احمد رحمہ اللہ نے کہا کہ : ’’دوران حمل ہمبستری سے بچے کی سماعت وبصارت میں اضافہ ہوتا ہے‘‘ ، اور اللہ کے نبی ﷺ نے اسی مفہوم کی صراحت اپنی اس حدیث میں کی ہے کہ:’’کسی بھی شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے سوا کسی اور کی کھیتی کو سیراب کرے ، اور یہ بات معلوم ہے کہ جس پانی سے کھیتی کو سیراب کیا جاتا ہے اس سے کھیتی میں اضافہ ہوتا ہے اور کھیتی اس سے پھلتی پھولتی ہے‘‘
    [تہذیب سنن أبی داؤد:۱؍۴۶۰]
    مذکورہ تفصیل سے شریعت کے اس حکم کی علت و حکمت واضح ہوجاتی ہے کہ حاملہ عورت سے وضع ِحمل سے قبل شادی کرنا کیوں ناجائز ہے ؟
    امام ابن القیم رحمہ اللہ ماقبل میں مذکور صحیح مسلم کی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
    ’’وَفِي هٰذَا دَلَالَةٌ ظَاهِرَةٌ عَلٰي تَحْرِيمِ نِكَاحِ الْحَامِلِ سَوَاء ٌ كَانَ حَمْلُهَا مِنْ زَوْجٍ أَوْ سَيِّدٍ أَوْ شُبْهَةٍ أَوْ زِنًي‘‘
    ’’اس حدیث میں اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حاملہ عورت سے نکاح کرنا حرام ہے خواہ اس کا حمل شوہر سے ہو ، یا آقا سے ہو ، یا شبہ کی بنیاد پر ہو، یا زنا سے ہو ‘‘
    [زاد المعاد، ن مؤسسۃ الرسالۃ:۵؍۱۴۲]
    یاد رہے کہ اگرکسی عورت کے ساتھ زناکیا گیا اور پھراسے حمل ٹھہرگیا تو وضع حمل( یعنی بچے کی پیدائش) سے پہلے اس عورت سے وہ زانی بھی شادی نہیں کرسکتا جس کے نطفہ سے یہ حمل ٹھہرا ہے ۔
    کیونکہ مذکورہ حکم کے عموم میں یہ بھی شامل ہے نیز زانیہ کا حمل حرام نطفے کا ہوتا ہے اور اس حالت میں اس کے ساتھ شادی کی جائے گی تو اس کے ساتھ حلال نطفے کا اختلاط ہوگا اور بچہ حرام اور حلال خون کا مجموعہ ہوگا اس بناپر بھی یہ شادی جائز نہیں ہے۔
    چنانچہ یہی وجہ ہے کہ بعض وہ اہل علم جوعدم تنازع کی صورت میں زنا سے نسب کو ثابت مانتے ہیں وہ بھی زانیہ حاملہ سے اس کے زانی کی شادی وضع حمل سے پہلے جائز نہیں مانتے تاکہ حرام اور حلال خون کا اختلاط نہ ہو۔
    ممکن ہے کہ کوئی کہے کہ حلال نطفہ اور حرام نطفہ میں اختلاط سے بچنے کے لئے یہ بھی تو کیا جاسکتا ہے کہ شادی کے بعد وضع حمل تک زانی کوہمبستری کی اجازت نہ دی جائے ، جیساکہ بعض کا موقف ہے۔
    توعرض ہے کہ:
    اس فلسفہ کی رو سے کسی بھی حاملہ کی عدت وضع ِحمل نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہرحاملہ کی شادی جائز ٹھہرانا چاہیے اور یہ کہنا چاہے کہ شوہر وضع حمل سے قبل ہمبستری نہ کرے ۔
    مثلاً کسی حاملہ عورت کا شوہر فوت ہوجائے یاکسی حاملہ عورت کو طلاق بائن دے دی جائے تو کیا کسی دوسرے شخص کو اس کے ساتھ شادی کی اجازت دی جاسکتی ہے اس شرط کے ساتھ کہ وہ وضع حمل تک اس سے ہمبستری نہیں کرے گا؟ اگر نہیں تو پھر زانیہ حاملہ کے ساتھ بھی مذکورہ شرط پر کسی کوشادی کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے ۔
    حاملہ عورت سے منعِ نکاح کی علت اور میڈیکل سائنس:
    ماقبل میں جو یہ کہا گیا کہ حاملہ سے جماع کرنے کی صورت میں مرد کے پانی کا حمل پر اثر پڑتا ہے ، تو بعض لوگ یہ کہتے ہیں یہ بات میڈیکل سائنس کے خلاف ہے ۔
    عرض ہے کہ:
    اولاً:
    ابھی تک ایسی کوئی میڈیکل ریسرچ سامنے نہیں آئی ہے کہ جس میں یہ کہا گیا ہو کہ حاملہ سے جماع کرتے وقت مرد کے منی کا حمل پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔
    زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ رحم میں حمل ٹھہرنے کے بعد بچہ ہرطرف سے قید ہوجاتا ہے اور باہر کی کوئی چیز اس تک نہیں پہنچتی ، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ مرد کا پانی بھی اس بچے پر بلاواسطہ یا بالواسطہ کوئی اثر نہیں ڈالتا ، بلکہ کئی اطباء دورانِ حمل ہمبستری کے یہ فوائد بتلاتے ہیں کہ اس سے ماں کی صحت کو فائدہ پہنچتا ہے ، لہٰذا جب یہ ماں کی صحت پر اثرانداز ہوتا ہے تو بالواسطہ بچے کی صحت پر بھی اس کا اثر ہوگا ۔
    ثانیاً:
    اگر یہ مان لیں کہ دوران حمل ہمبستری سے مرد کے منی کا حمل پر بلاواسطہ یا بالواسطہ کوئی بھی اثر نہیں پڑتا ہے ، تو اشکال صرف زانیہ حاملہ سے منع ِنکاح پر نہیں ہوگا ، بلکہ دیگر حاملہ خواتین مثلاً حاملہ اورمتوفیٰ عنہا زوجہا وغیرھا سے منعِ نکاح پر بھی اشکال وارد ہوگا۔
    ایسی صورت میں یہ مانے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ حاملہ سے منعِ نکاح کی علت تعبدی اور غیر معقول المعنی ہے ، جیساکہ اہل علم کی ایک جماعت کا یہ موقف ہے ۔
    دیکھیں:[ بدایۃ المجتہد ونہایۃ المقتصد :۳؍۹۲]
    اورجب حاملہ عورت سے منعِ نکاح کی علت کو تعبدی اور غیر معقول المعنی مان لیں گے تو پھر اس حکم میں بشمول زانیہ حاملہ ہر قسم کی حاملہ عورت شامل ہوگی کیونکہ کسی کا بھی استثناء کرنے کے لیے حکم کی تعلیل کرنی پڑے گی اور تعبدی حکم کی تعلیل نہیں کی جاتی ۔
    الغرض یہ کہ اگر کوئی حاملہ عورت سے منعِ نکاح کی مذکورہ علت نہ مانے تو بشمول حاملہ زانیہ ہر حاملہ عورت سے نکاح کو ناجائز وحرام ماننا ہوگا۔
    لیکن ہماری نظر میں درست بات یہ ہے کہ حاملہ سے منعِ نکاح کا حکم معقول العلہ ہے اور اس کی علت وہی ہے جو گزشتہ سطور میں ذکر کی گئی اور اس رو سے حاملہ زانیہ سے وضعِ حمل سے قبل نکاح کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، یہی جمہور اہل علم کا موقف ہے۔
    اب اگلی سطور میں ہم جمہور اہل علم کے بعض اقوال پیش کریں گے اس کے بعد اس مسئلہ کے دلائل پر بات ہوگی۔
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings