Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • زانیہ حاملہ کی زناکرنے والے کے ساتھ شادی (قسط ثانی)

    زانیہ حاملہ سے زانی کی شادی ناجائز ہونے پر اہل علم کے اقوال:
    اگرکسی عورت کے ساتھ زناکیا گیا اور پھراسے حمل ٹھہرگیا تو وضع حمل(یعنی بچے کی پیدائش)سے پہلے اس عورت سے کوئی شادی نہیں کرسکتا ،حتیٰ کہ وہ زانی بھی اس سے شادی نہیں کرسکتا جس کے نطفہ سے یہ حمل ٹھہرا ہے۔ امت کے اکثر ائمہ وفقہاء کا یہی کہنا ہے ،چنانچہ مذاہب اربعہ میں مالکیہ اور حنابلہ کا یہی موقف ہے ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور امام ابن القیم رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے ،معاصرین میں علامہ البانی رحمہ اللہ ، شیخ بن جبرین رحمہ اللہ ،شیخ بن باز رحمہ اللہ کی بھی یہی رائے ہے اورعام حالات میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا بھی یہی فتویٰ ہے ۔
    اوریہی راجح ہے کتاب وسنت سے اس کے دلائل پیش کرنے سے قبل مذکورہ اہلِ علم کے اقوال باحوالہ دیکھ لیں۔
    ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ ‘‘میں ہے:
    ’’التَّزَوُّجُ بِالزَّانِيَةِ إِنْ كَانَ الْعَاقِدُ عَلَيْهَا هُوَ الزَّانِي صَحَّ الْعَقْدُ، وَجَازَ الدُّخُول عَلَيْهَا فِي الْحَالِ سَوَاء ٌ أَكَانَتْ حَامِلاً أَمْ غَيْرَ حَامِلٍ عِنْدَ الْحَنَفِيَّةِ وَالشَّافِعِيَّةِ، إِذْ لَا حُرْمَةَ لِلْحَمْل مِنَ الزِّنَا،وَقَالَ الْمَالِكِيَّةُ وَالْحَنَابِلَةُ: إِنَّهُ لَا يَجُوزُ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا حَتّٰي يَسْتَبْرِئَهَا مِنْ مَائِهِ الْفَاسِدِ، حِفَاظًا عَلٰي حُرْمَةِ النِّكَاحِ مِنِ اخْتِلَاطِ الْمَائِ الْحَلَال بِالْحَرَامِ ‘‘
    ’’ زانیہ خواہ وہ حاملہ ہو یا غیر حاملہ اگر اس کے ساتھ زنا کرنے والا اس سے شادی کرے تو حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک یہ درست ہے اور شادی کے بعد اس کے ساتھ دخول بھی جائز ہے ۔ کیونکہ زنا کے حمل کا کوئی احترام نہیں ہے ، اور مالکیہ اور حنابلہ کا کہنا ہے کہ زانیہ حاملہ سے زانی کا شادی کرنا اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک کہ زانیہ کے رحم میں موجود فاسد پانی باہر نہ آجائے ، (یعنی وضع حمل نہ ہوجائے) تاکہ نکاح کے بعد حرام اور حلال پانی کا اختلاط نہ ہو‘‘
    [الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ:۳۶؍۲۲۰]
    ابو بکر ابن العَرَبی المالکی(ت ۵۴۳ہـ) نے کہا:
    ’’وَرَأَي الشَّافِعِيُّ وَأَبُو حَنِيفَةَ أَنَّ ذَلِكَ الْمَائَ لَا حُرْمَةَ لَهُ، وَرَأَي مَالِكٌ أَنَّ مَائَ الزِّنَا وَإِنْ كَانَ لَا حُرْمَةَ لَهُ، فَمَائُ النِّكَاحِ لَهُ حُرْمَةٌ، وَمِنْ حُرْمَتِهِ أَلَّا يُصَبَّ عَلٰي مَائِ السِّفَاحِ، فَيُخْلَطُ الْحَرَامُ بِالْحَلَالِ، وَيُمْزَجُ مَائُ الْمَهَانَةِ بِمَائِ الْعِزَّةِ ‘‘
    ’’ امام ابوحنیفہ اورامام شافعی کی رائے ہے کہ زنا کے پانی کا کوئی احترام نہیں ہے اور امام مالک کی رائے یہ ہے کہ گرچہ زنا کے پانی کا کوئی احترام نہیں ہے لیکن شوہر کے پانی کا احترام ہے اور اس کے احترام کا تقاضا ہے کہ اس پانی کو بدکاری والے پانی پر نہ بہایا جائے تاکہ حلال اور حرام پانی کا اختلاط نہ ہو اور ذلیل پانی اور عزت دار پانی ایک دوسرے کے ساتھ نہ ملیں ‘‘
    [أحکام القرآن لابن العربی ط العلمیۃ :۳؍۳۳۸،الفقہ علی المذاہب الأربعۃ :۵؍۱۲۳]
    فقہ مالکی کی کتاب’’ المدونۃ ‘‘میں ہے :
    قُلْتُ: ’’أَرَأَيْتَ الرَّجُلَ إذَا زَنَي بِالْمَرْأَةِ، أَيَصْلُحُ لَهُ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا‘‘؟ قَالَ: قَالَ مَالِكٌ: ’’نَعَمْ يَتَزَوَّجُهَا وَلَا يَتَزَوَّجُهَا حَتَّي يَسْتَبْرِئَ رَحِمَهَا مِنْ مَائِهِ الْفَاسِدِ‘‘
    میں نے پوچھاکہ: ’’اگر کوئی آدمی کسی عورت سے زنا کرلے تو کیا اس زانی کے لیے اس زانیہ سے شادی کرنا درست ہے ؟‘‘تو انہوں نے کہا: ’’کہ امام مالک رحمہ اللہ کاکہنا ہے کہ ہاں یہ زانی اس زانیہ سے شادی کرسکتاہے ، لیکن اس زانیہ کے رحم سے فاسد پانی کے خالی ہونے کے بعد ‘‘
    [المدونۃ:۲؍۱۷۳]
    مالکیہ میں عبد الوہاب بن علی البغدادی المالکی (ت ۴۲۲) فرماتے ہیں:
    ’’لا يجوز عقد النِّكاح على الحامل من زنا حتّي تضع، كان العاقد هو الزاني أو غيره ، واختلف عن أبي حنيفة فقال مثل قولنا فى إحدي الروايتين، وبه قال أبو يوسف‘‘
    ’’حاملہ عورت سے وضع حمل سے پہلے شادی کرنا جائز نہیں ہے خواہ شادی کرنے والا اس کے ساتھ زنا کرنے والا ہی ہو یا کوئی اور ہو ، اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا اس مسئلہ میں دو قول ہے جن میں ایک قول بالکل ہمارے موافق ہے ۔ اور امام ابویوسف رحمہ اللہ کا یہی قول ہے‘‘
    [عیون المسائل للقاضی عبد الوہاب المالکی: ص: ۳۰۹]
    علامہ الحَطَّابِ الرُّعَیْنِی المالکی(المتوفی۹۵۴) لکھتے ہیں:
    ’’وَسَوَاء ٌ كَانَ هُوَ الزَّانِيَ بِهَا، أَوْ زَنَي بِهَا غَيْرُهُ فَإِنَّهُ لَا يَجُوزُ لَهُ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا حَتَّي يَسْتَبْرِئَهَا مِنْ الزِّنَا وَإِنْ تَزَوَّجَ بِهَا فِي مُدَّةِ الِاسْتِبْرَائِ فُسِخَ النِّكَاحُ ‘‘
    ’’ اورزانیہ سے شادی کرنے والا چاہے وہی شخص ہو جس نے اس کے ساتھ زنا کیا ہے یا کوئی اور ہو ، کسی کے لیے بھی اس سے استبراء رحم سے قبل شادی کرنا جائز نہیں ہے اور اگر کسی نے استبراء کی مدت میں شادی کرلی تو نکاح فسخ ہوجائے گا‘‘
    [مواہب الجلیل فی شرح مختصر خلیل:۳؍۴۱۳]
    علَّامۃِ مُوسَی الحَجَّاوِی فرماتے ہیں:
    ’’وتحرم الزانية إذا علم زناها على الزاني وغيره حتي تتوب وتنقضي عدتها فإن كانت حاملا منه لم يحل نكاحها قبل الوضع‘‘
    ’’اور زانیہ کا زنا معلوم پڑجائے تو اس سے شادی اس کے ساتھ زنا کرنے والے کے لیے اور دوسروں کے لیے بھی حرام ہے یہاں تک کہ وہ توبہ کرلے اور اس کی عدت ختم ہوجائے ، اور اگر وہ زانیہ حاملہ ہو تو اس حمل سے پہلے اس سے نکاح جائز نہیں ہے‘‘
    [الإقناع فی فقہ الإمام أحمد بن حنبل:۳؍۱۸۶]
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (المتوفی۷۲۸) فرماتے ہیں:
    ’’وكذلك نكاح الحامل أو المعتدة من الزنا باطل فى مذهب مالك وهو أشبه بالآثار والقياس لئلا يختلط الماء الحلال بالحرام‘‘
    ’’زانیہ حاملہ یا زانیہ معتدہ سے نکاح امام مالک کے قول کے مطابق باطل ہے اور یہی بات احادیث و قیاس سے ہم آہنگ ہے تاکہ حلال پانی حرام پانی کے ساتھ خلط ملط نہ ہو‘‘
    [مجموع الفتاویٰ، ت ابن قاسم: ۲۰؍۳۸۰]
    مالکیہ کی موافقت میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی یہ عبارت واضح دلیل ہے کہ وہ حلال اور حرام خون کو خلط ملط کرنے کے قائل نہیں ہیں ۔ اورزانیہ حاملہ سے زانی ہی نکاح کرے تو بھی حلال اور حلام خون کا اختلاط ہوگا ۔لہٰذا زانیہ حاملہ سے زانی کی شادی وضع حمل سے قبل ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی نظر میں بھی جائز نہیں ہے۔
    امام ابن القیم رحمہ اللہ نے بھی یہی بات لکھی ہے :
    ’’ولأنّ ماء الزاني وإن لم يكن له حُرْمة فماء الزوج محترم، فكيف يسوغ له أن يخلطه بماء الفجور؟‘‘
    ’’کیونکہ زانی کے نطفہ(خون) کا گرچہ کوئی احترام نہیں ہے لیکن شوہر کا نطفہ (خون)قابل احترام ہے ، تو شوہر کے لیے کیسے جائز ہوسکتاہے کہ حرام نطفہ (خون)کے ساتھ اپنے حلال نطفہ (خون)کو خلط ملط کرے‘‘
    [تہذیب سنن أبی داؤد- ط عطاء ات العلم:۱؍۴۵۳]
    شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ:’’ایک شخص نے ایک عورت سے زنا کیا جس سے وہ حاملہ ہوگئی تو کیا اب یہ دونوں شادی کرسکتے ہیں ‘‘؟ تو شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے جواب دیا:
    ’’إذا كانا قد تابا جميعا إلى اللّٰه سبحانه، فلا حرج أن يتزوجها بعد وضع الحمل۔والحمل ينسب إلى أمه ولا ينسب إليه، لأنه ولد من سفاح لا من نكاح‘‘
    ’’اگران دونوں نے اللہ کی بارگاہ میں تو بہ کرلیا ہے تو یہ دونوں وضع حمل کے بعد شادی کرسکتے ہیں اور حمل ماں کی طرف منسوب ہوگا زانی کی طرف نہیں ، کیونکہ یہ حرام کاری سے پیدا ہوا ہے نہ کہ نکاح سے‘‘
    [مجموع فتاویٰ ومقالات متنوعۃ لابن باز:۲۱؍۲۰۶]
    شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’فأما أن يقول: سوف أتزوجها حتي أسترها أو حتي لا تفتضح، فلا يجوز…فإذا رخص لهم فى هذا كثر الزنا، وكثر الفحش، وصار كل من زني وواقع امرأة حرص علٰي أن يتزوجها ثم يطلقها، وطلاقه لها قد يكون الحامل له عدم ثقته بها، يقول: إذا زنت وهى غير متزوجة فيمكن أن تزني وهى متزوجة، فلا آمنها فراشاً لي‘‘۔
    ’’اگرزانیہ حاملہ سے زناکرنے والا یہ کہتا ہے کہ میں اس سے شادی کرکے اس کے گناہ پر پردہ ڈالتاہوں تاکہ اس کی رسوائی نہ ہو تو یہ جائز نہیں ہے …اگر ان زانیوں کے لیے اس طرح کی رخصت دی گئی تو فحاشی اور بدکاری اور عام ہوجائے گی اور ہر وہ شخص جو کسی عورت کے ساتھ زنا کرے گا وہ اس کے ساتھ شادی کرنے کے بعد اسے طلاق دینا ہی پسند کرے گا کیونکہ اس پر سے اس کا اعتماد اٹھ جائے گا وہ سوچے گا کہ یہ عورت اگر شادی سے پہلے کسی کے ساتھ زنا کرسکتی ہے تو شادی کے بعد بھی کسی کے ساتھ زنا کرسکتی ہے اس لیے یہ بیوی بنانے کے لائق نہیں ہے‘‘
    [شرح عمدۃ الأحکام لابن جبرین:۷؍۶۴بترقیم الشاملۃ آلیا]
    شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ جن کا میلان مخالف موقف کی طرف ہے وہ بھی علی الاطلاق جواز کا فتویٰ دینے کو ناجائز کہتے ہیں ، چنانچہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
    ’’ومن العلماء من يجوز ذٰلك إذا تحققت التوبة، وأنه إذا استلحقه الزاني يُلحق به۔ لكن هذا الباب لا يجوز إطلاقًا أن يفتح للناس، فلو كان هذا القول من الناحية النظرية قولًا صحيحًا إلا أنه لا يجوز أن يُفتي به الناس على الإطلاق؛ لأنهم لو أُفتوا به لتساهلوا فى هذا الأمر، ولكان كل إنسان يزني بامرأة فإذا حملت ذهب يتزوجها، وأهلها سوف يضطرون إلى أن يزوجوه، وسيفتح بهذا باب شر على الناس‘‘
    ’’بعض علماء توبہ کے بعد اسے جائز بتلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگرزانی اپنے لڑکے کو اپنالے تو وہ اس کا ہی مانا جائے گا، لیکن اس دروازہ کو لوگوں کے لئے علی الاطلاق کھولنامناسب نہیں ہے ،یہ قول گرچہ علمی اعتبارسے صحیح ہو اس کے باوجود بھی علی الاطلاق لوگوں کواس کے مطابق فتویٰ دینا درست نہیں ہے ، کیونکہ اگر علماء یہ فتوے دینے لگ جائیں تو لوگ اس معاملہ میں بے پرواہ ہوجائیں گے اور صورت حال یہ ہوگی کہ بہت سے لوگ اپنی محبوبہ سے (شادی کرنے کی خاطرہی) زناکریں گے کیونکہ جب وہ حاملہ ہوجائے گی اور اس کے بعد وہ اس سے شادی کی مانگ کریں گے تو اس کے گھر والے مجبوراًاس کے ساتھ اس کی شادی کردیں گے اوراس طرح لوگوں کے لیے ایک شر کادروازہ کھل جائے گا ‘‘
    [تفسیر العثیمین: النساء:۲؍۵۱۶]
    علامہ البانی رحمہ اللہ سے بھی سوال کیا گیا کہ :
    ’’امرأة حامل من الزنا وهذا الرجل يريد أن يتزوجها فهل يشترط عليه أن ينتظرها حتي تضع‘‘
    ’’ایک عورت زنا سے حاملہ ہے اور اس کے ساتھ زنا کرنے والا اس سے شادی کرنا چاہتاہے تو کیا یہ ضروری ہے کہ وضع حمل تک وہ انتظار کرے ‘‘؟
    تو علامہ البانی رحمہ اللہ نے جواب دیا:
    ’’طبعا لأن ذاك معصية…يجب أن يتوب هو وتتوب هي مما فعلوا وبعدين حتي يجوز أن يتزوج أحدهما الآخر وينتظرها حتي تضع ‘‘
    ’’ جی بالکل کیونکہ یہ گناہ ہے…پہلے ضروری ہے کہ وہ زانی اور وہ زانیہ دونوں اپنے زنا سے توبہ کرلیں تاکہ ایک دوسرے سے ان کا شادی کرنا جائز ہوسکے اور زانی شادی سے پہلے زانیہ کے وضع حمل تک انتظار کرے‘‘
    [سلسلۃ الہدیٰ والنور (مفرغ کاملا):۲؍۳۹۵]
    اسلام سوال وجواب ویب سائٹ پر ایک عورت نے سوال کیا کہ اس نے کسی آدمی کے ساتھ زنا کیا جس کے بعد وہ حاملہ ہوگئی پھر اس نے اسی زانی آدمی سے شادی کرلی، تو اسے یہ جواب دیا گیا:
    ’’المذكور فى موقعنا هو عدم صحة زواج الزاني من الزانية قبل التوبة وقبل استبراء الرحم، والمسألة محل خلاف بين الفقهاء ، وما اعتمدناه هو مذهب الإمام أحمد رحمه اللّٰه وهو الذى يشهد له الدليل‘‘
    ’’ہماری ویب سائٹ پر یہی جواب دیاگیا ہے کہ زانی کا زانیہ سے توبہ اور استبراء رحم سے قبل شادی کرنا جائز نہیں ہے ، اس مسئلہ میں فقہاء کا اختلاف ہے اور ہمارا اعتماد امام احمد رحمہ اللہ کے مذہب پرہے کیونکہ دلیل سے اسی کی تائید ہوتی ہے‘‘
    [موقع الإسلام سؤال وجواب:۶؍۱۰۴،بترقیم الشاملۃ آلیا]
    اسلام ویب کی افتاء کمیٹی کے فتویٰ میں ہے:
    ’’فقد اختلف الفقهاء رحمهم اللّٰه فى نكاح من زني بامرأة وحملت منه فقال المالكية والحنابلة وأبو يوسف من الحنفية: لا يجوز نكاحها قبل وضع الحمل، لقول النبى صلى اللّٰه عليه وسلم: لا توطأ حامل حتي تضع۔رواه أبو داؤد والحاكم وصححه‘‘
    ’’فقہاء کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ اگرکسی نے کسی لڑکی سے زناکیا اور وہ حاملہ ہوگئی تو زانی اس سے شادی کرسکتا ہے یانہیں؟تو مالکیہ،حنابلہ اوراحناف میں سے امام ابویوسف کاکہنا ہے کہ زانی کا اس سے وضع حمل سے قبل شادی کرنا جائزنہیں ہے کیونکہ اللہ کے نبی ﷺکا فرمان ہے: حاملہ (لونڈی) سے وضع حمل سے قبل جماع نہ کیا جائے اسے امام ابوداؤد اورحاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے اسے صحیح قراردیاہے‘‘
    [فتاوی الشبکۃ الإسلامیۃ :۱۳؍ ۱۱۵۴ بترقیم الشاملۃ آلیا]
    شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ خاں مدنی لکھتے ہیں:
    حالت ِ حمل میں زانی اور زانیہ کا نکاح نہیں ہوتا۔ عہد ِرسالت میں ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا، بعد میں معلوم ہوا کہ یہ حاملہ بالزنا ہے، تو آپﷺ نے عورت اور مرد میں تفریق کرادی تھی اوراگر ناجائز حمل اسی زانی کا ہو پھر بھی نکاح نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ نطفہ حرام کی شرعاً کوئی قدر نہیں،اس سے نسب اور وراثت وغیرہ کا اثبات نہیں ہوتا۔ لہٰذا عورت مرد میں فوراً علیحدگی کرادی جائے۔ البتہ وضع حمل کے بعد تائب ہو کر دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔
    [فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ: ج۴،ص۴۹]
    جاری ہے………

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings