-
کورونا وائرس اور احتیاطی تدابیر (عجیب درد ہے جس کی دوا ہے تنہائی) ایک دنیوی مشین کا موجد بہتر جانتا ہے کہ اس مشین کے لیے کیا چیز مفید اور کیا چیز مضر ثابت ہوسکتی ہے یہی وجہ ہے کہ مشین ایجاد کرنے کے بعد وہ ایک ہدایات تیار کرتا ہے جس میں وہ استعمال کے طریقے،احتیاطات وغیرہ درج کردیتا ہے یہ طریقہ دراصل اس نے اپنے خالق حقیقی ہی سے اخذ کیا ہے جس نے اس کائنات ارضی کو پیدا کیا اور اس میں انسانوں کو آباد کرنے کے بعد قانون کی شکل میں ایک کتاب ہدایت نازل کی جو چیزیں انسان کے حق میں مفید تھیں انہیں حلال قرار دیا اور جو چیزیں انسان کے حق میں مضر تھیں انہیں حرام قرار دیا کیونکہ وہ بہتر جانتا ہے کہ اس زمین پر بسنے کے لیے انسان کے حق میں کیا چیز مفید اور کیا چیز مضر ثابت ہوگی تاہم جب انسان اللہ کے بتائے ہوئے ہدایات سے ہٹ کر من مانی چیزوں کو اپنانے اور قبول کرنے لگ جاتا ہے تو اس کے برے نتائج سامنے آنے لگتے ہیں کرونا وائرس انہیں نتائج میں سے ایک نتیجہ ہے جو تادم تحریر ۱۶۱ممالک تک سرایت کرچکا ہے۔
کورونا وائرس کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟
کورونا وائرس کے بارے میں گمان یہی ہے کہ یہ جانوروں میں پایا جانے والا ایک وائرس(جراثیم)ہے جو انسانوں میں منتقل ہوا ہے یہ وائرس چین کے شہر ووہان سے شروع ہوا چونکہ چین ایک گنجان آبادی والا ملک ہے جہاں مختلف قسم کے غلیظ جانور مثلاً چمگادڑ، سانپ، لومڑی، چوہا حتیٰ کہ ہر زمین میں گھسنے والے جاندار کو خوراک کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے انہیں موذی جانوروں میں سے کسی جانور کے جراثیم انسانوں میں منتقل ہوئے جس کی وجہ سے چند ہی ایام میں انسانی نظام درہم برہم ہوگیا ۔
کورونا وائرس کی وجہ تسمیہ:
کورونا (corona)لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی تاج یا ہالہ کے ہوتے ہیں۔ چونکہ اس وائرس کی ظاہری شکل سورج کے ہالے یعنی کورونا کے مشابہ ہوتی ہے، اسی وجہ سے اس کا نام’’کورونا وائرس‘‘رکھا گیا ہے۔
وائرس(جراثیم)کیا ہیں؟
وائرس(جراثیم)اللہ تعالیٰ کی چھوٹی سی مخلوق ہیں جو صرف خردبین یا الٹرامائکرو اسکوپ کے ذریعے ہی نظر آتے ہیں یہ فی نفسہٖ مرض نہیں بلکہ بسا اوقات مرض کا سبب بنتے ہیں حالیہ دنوں میں چین کے شہر ووہان میں ظاہر ہونے والے جراثیم کو( Covid-19)کا نام دیا گیا ہے۔
کورونا وائرس کی علامات:
ابھی تک جن لوگوں میں اس وائرس کی تشخیص ہوئی ہے ان افراد کو دیکھتے ہوئے درج ذیل علامات سامنے آئی ہیں: اس وائرس کی ابتدا بظاہر تیز بخار سے شروع ہوتی ہے۔ پھر بد ہضمی اور سردی کا احساس شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد خشک کھانسی آتی ہے۔ایک ہفتے بعد سانس لینے میں دشواری ہونا شروع ہوتی ہے۔
کیا کورونا وائرس ایک متعدی مرض ہے؟
جی ہاں! کورونا وائرس ایک وبائی مرض ہے جو کسی شخص کو لاحق ہونے کے تقریباً چودہ دنوں کے بعد کھل کر سامنے آتا ہے۔
متعدی مرض کا مفہوم:
ہر وہ بیماری جو جرثومے کی منتقلی سے معرض وجود میں آئے اور بڑھتی چلی جائے اسے طبی زبان میں وبائی یا متعدی بیماری سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
کیا اسلام میں متعدی بیماریوں کا تصور ہے؟
اسلام میں متعدی یا وبائی بیماریاں اس معنی میں پائی جاتی ہیں کہ وہ بذات خود مؤثر(اثر اندازہونے والی)نہیں ہوتی ہیں بلکہ اللہ کی ذات ہے جو اس میں اثر پیدا کرتی ہے یہ بات درست ہے کہ جرثومے کی منتقلی سے بیماریاں ہوتی ہیں اور بسا اوقات بہت تیزی کے ساتھ آس پاس کے افراد کو اپنی چپیٹ میں لے لیتی ہیں لیکن یہ جرثومے اسی وقت اڑ کر کسی انسان کو لگ سکتے ہیں جب اللہ کی مشیت اور اس کا حکم شامل ہو۔اگر اللہ کی مشیت اور اس کا حکم شامل حال رہا تو وہ جرثومے انسان تک پہنچ کر رہیں گے اگر چہ وہ کوسوں دور ہو اور اگر اس کی مشیت اور اس کا حکم شامل حال نہ تو کبھی نہیں پہنچ سکتے اگر چہ وہ مریض کے شانہ بشانہ رہے ۔
چونکہ دور جاہلیت میں لوگوں کا عقیدہ تھا کہ بیماریوں کے پھیلنے میں اللہ کے حکم کا کوئی عمل دخل نہیں ہے بلکہ وہ بذات خود پھیلتی ہیں اس باطل عقیدے کو رد کرتے ہوئے آپ ﷺنے فرمایا:
’’لاعدوی‘‘’’کہ کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی‘‘[مسلم:۲۲۲۱]
اس حدیث کے ذریعہ جاہلیت کے عقیدے کو باطل قرار دیا گیا ساتھ ہی یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ وبائی بیماریوں کے پھیلنے کا سبب جراثیم کا اڑ کر لگنا ہی ہے لیکن یہ سبب اسی وقت پایا جاتا ہے جب اللہ کی مشیت اور اس کا حکم شامل ہو۔
کرونا وائرس کو لعن طعن کرنے کا حکم:
امراض کو لعن طعن کرنا کسی کے لئے جائز نہیں ہے اور نہ ہی لعنت کرنا ایک مومن کی شان ہے۔
رسول اللہ ﷺام مسیب کے گھر گئے اور فرمایا:
اے ام مسیب تم کانپ کیوں رہی ہو؟ تو وہ کہنے لگیں بخار کی وجہ سے’’ لا بارک اللّٰہ فیہا‘‘ ’ ’اللہ اس میں برکت نہ کرے تو آپ نے فرمایا:بُخار کو بُرا مت کہو ، کیونکہ وہ بنی آدم کے گناہوں کو ایسے دور کر دیتا ہے جیسے بھٹی لوہے کے میل کو دور کر دیتی ہے‘‘[صحیح مسلم:۶۲۴۴]
یہاں بخار کو برا بھلا کہنے سے منع کرنا تمام امراض کو برا بھلا کہنے کو شامل ہے کیونکہ سارے امراض اللہ کی تقدیر کا حصہ ہونے اور خطاؤں کو مٹانے میں مشترک ہیں۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’کہ کسی مومن کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی ایسی چیز پر لعن طعن کرے جو اس کا اہل نہیں ہے اور امراض اللہ کی تقدیر کا ایک حصہ ہیں امراض کو گالی دینا اللہ کو گالی دینے کے درجے میں ہے لہٰذا جو شخص اس طرح کا کلمہ اپنی زبان سے نکالے اسے چاہیے کہ اللہ سے توبہ کرے اپنے دین کی طرف رجوع کرے، جان لے کہ مرض اللہ کی تقدیر سے ہوتا ہے اور جو بھی مصیبت انسان کو لاحق ہوتی ہے سب اس کے برے کرتوتوں کا نتیجہ ہے اللہ ظالم نہیں ہے بلکہ انسان خود ظالم ہے‘‘
کرونا وائرس سے قبل تاریخ کے چند وبائی امراض:
طاعون عمواس:
طاعون عمواس خلافت فاروقی میں شام کے قریہ عمواس میں پھیلنے والی ایک وبا ہے جس میں ہزاروں صحابہ وفات پاگئے جب یہ وبا کثرت کے ساتھ پھیلنے لگی اور رومی ودیگر اطباء اس کے روک تھام سے عاجز آگئے تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عمر بن عاص کے پاس خط بھیج کر مطالبہ کیا کہ وہ اس وبا سے نکلنے کی کوئی تدبیر نکالیں تو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’فتأملت فیہ (الطاعون)فوجدتہ ینتشر عندما یجتمع الناس فامرتہم ان یتفرقوا فی الاریاف او الجبال فانتہی الطاعون فی ثلثۃ ایام‘‘’’کہ میں نے طاعون کے سلسلے میں غور کیا تو پتہ چلا کہ لوگوں کے جمع ہونے پر یہ پھیل رہا ہے تو میں نے انہیں دیہات یا پہاڑوں میں منتشر ہونے کی ہدایت کی ، لہٰذا طاعون تین دن میں ختم ہوگیا‘‘
سیاہ موت(بلیک ڈیتھ)
یہ ایک تباہ کن وبائی مرض تھا جو ۱۳۴۷ء تا۱۳۵۰ء تک رہا ایک اندازے کے مطابق یورپ میں بیس کروڑ افراد اس وبا سے ہلاک ہوئے۔سیاہ موت میں تباہی اس قدر بھیانک تھی کہ پورے شہر میں مُردوں کو دفنانے والا کوئی نہیں بچا تھا اس وبا کے اثرات کی وجہ سے تاریخ میں پہلی بار دنیا کی مجموعی آبادی کم ہو گئی اور دوبارہ آبادی کی اس سطح تک پہنچنے کے لیے دنیا کو دو سو سال لگ گئے۔
ہسپانوی فلو:
۱۹۱۸ء تا۱۹۲۰ء کے دوران اس وبا نے محض اپنے ابتدائی ۲۵ہفتوں میں ۲۵ملین افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا یہ وبا امریکا، یورپ، ایشیا اور افریقا تک پھیل گئی تھی۔
سال رحمت:
یہ وبا ۱۹۱۹ء میں جزیرہ عرب میں پھیلی تین مہینے تک رہنے والی اس وبا میں لاکھوں افراد لقمۂ اجل بن گئے مردوں کی اس قدر کثرت تھی کہ ایک ایک دن میں سو سو جنازے کی نماز پڑھی جاتی ،مساجد بند ہوگئیں ،رہائش گاہوں سے مکانات خالی ہوگئے، مویشیاں جنگلات میں ماری ماری پھرنے لگیں، کوئی چرانے اور پانی پلانے والا نہیں ملتا کثرت سے لاشوں کو دیکھ کر لوگوں میں ہمدردی اور رحم کا مادہ پیدا ہوا جس کی وجہ سے لوگوں نے اسے سنۃ الرحمۃ یعنی ’’سال رحمت‘‘کا نام دے دیا۔
مذکورہ بالا وبائی امراض کو مد نظر رکھتے ہوئے دو بنیادی باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں۔
۱۔ وبائی امراض سے بچنے کے لئے آپسی اختلاط سے بچنا از حد ضروری ہے یہی نسخہ طاعون عمواس میں عمرو بن عاص نے اختیار کیا اور یہی نسخہ آج کے اطباء نے بھی اختیار کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے ع
عجیب درد ہے جس کہ دوا ہے تنہائی
۲۔ آپسی اختلاط سے بچتے ہوئے اللہ سے اپنا رشتہ مضبوط کرنا کیونکہ اسی کے ہاتھ میں شفا ہے ’’واذا مرضت فہو یشفین‘‘’’ جب میں بیمار پڑوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے‘‘ تاریخ کے تمام وبائی امراض کے انتشار کے دوران اسی پر ہمارے اسلاف کا عمل رہا ہے جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ۔
کرونا وائرس کے تئیں چند احتیاطی تدابیر :
اللہ رب العالمین نے کوئی ایسا مرض نازل نہیں کیا جس کی دوا نازل نہ کی ہو عموماً انسان مرض کا علاج تلاش کرلیتا ہے تاہم بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان علاج تک رسائی حاصل کرنے پر قادر نہیں ہوتا کورونا وائرس بھی انہیں امراض میں سے ایک ہے جس کے علاج تک اطباء ابھی تک نہیں پہنچ سکے ہیں تاہم گزشتہ مریضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اطباء کی جانب سے چند احتیاطی تدابیر بتائے گئے ہیں جن کو اختیار کیا جانا ازحد ضروری ہے۔
٭ گندے ہاتھوں سے ناک، آنکھ اور منھ کو چھونے سے گریز کریں۔
٭ سانس کی بیماری، جیسے کھانسی یا چھینک کی علامات ظاہر کرنے والے کسی بھی شخص کے براہ راست رابطے سے گریز کریں۔
٭ صابون یا پانی سے درج ذیل مواقع پرہاتھ دھوئیں۔
٭ کھانا پکانے سے پہلے، دوران میں اور بعد میں۔
٭ کھانے سے پہلے۔ کھانسنے یا چھینکنے کے بعد۔
٭ کسی بیمار فرد کی دیکھ بھال کرنے سے پہلے یا بعد میں۔
٭ باتھ روم استعمال کرنے کے بعد۔
٭ بچے کے ڈائپر تبدیل کرنے کے بعد۔
٭ جانوروں کو چھونے کے بعد۔
٭ کوڑا کرکٹ چھونے کے بعد۔
٭ انفیکشن کو کم کرنے کے لیے چھینکنے کے آداب
٭ چھینکنے یا کھانسنے کے لیے شو پیپر یا رومال کا استعمال کریں۔
٭ اپنے ہاتھوں کو گرم صابن والے پانی سے ۴۰سیکنڈ تک دھوئیں۔
٭ جتنی جلد ممکن ہو اس سے نجات حاصل کریں۔
٭ یا اپنے بازو کو موڑ کر کہنی کااستعمال کریں۔
٭ ماسک کا استعمال کب کریں؟
ماسک کا استعمال درج ذیل مواقع پر کریں۔
٭ سانس کی علامات میں مبتلا ہوں، جیسے کہ (چھینک اور کھانسی)
٭ سانس کی علامات والے کسی شخص کی دیکھ بھال کر رہے ہوں۔
٭ گزشتہ دنوں آپ ان ممالک میں سے کسی ایک میں تھے جن میں کوروناوائرس کے معاملے درج کیے گئے ہیں؟
٭ کھانسی یا چھینک آنے پردرج ذیل طریقہ کار اپنائیں۔
٭ وائپس کا استعمال کریںاور انھیں کوڑے دان میں پھینک دیں۔ یا اپنے منہ کو کہنی سے ڈھکیں۔
٭ گفتگو کے دوران اپنے درمیان میں کم از کم ایک میٹر کا فاصلہ رکھیں۔
٭ گھر سے نکلنے یا دوسروں کے ساتھ مخلوط ہونے پر ماسک پہنیں۔
٭ پھر اپنے ہاتھوں کو صابن، پانی یا جراثیم کش الکحل سے دھوئیں۔
اسلامی تعلیمات جو متعدد امراض سے بچانے میں معاون ہیں:
کرونا وائرس جو بتدریج دنیا میں پھیلتا جارہا ہے اس تناظر میں ہمارے لئے ضروری ہے کہ مذکورہ بالا اطباء کی جانب سے دئیے گئے احتیاطات پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک مسلم ہونے کے ناطے اسلامی تعلیمات پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوجائیں کیونکہ اسلام کے اندر وہ ساری چیزیں ابتدائً موجود ہیں جو بعد میں اطباء کی جانب سے ہمیں بتائی جاتی ہیں آئیے ہم چند سطور میں صفائی ستھرائی کے تعلق سے اسلامی تعلیمات کا تذکرہ کرتے ہیں اگر ہم انہیں اپنی روز مرہ کی زندگی میں نافذ کرلیں تو بہت سارے امراض سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
ہمارے لئے ضروری ہے کہ:
ہم حسی اور معنوی دونوں گندگیوں سے اپنے آپ کو پاک کریں۔
ظاہری گندگی سے پاکی کا سبب پانی اور اس کا متبادل مٹی ہے۔
معنوی گندگی سے پاکی کا سبب توبہ ہے۔
اللہ کا فرمان ہے: {إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّا بِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِینَ}
’’اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاکی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘
یعنی جو لوگ ظاہری گندگیوں کی صفائی کرتے ہیں اور باطنی گندگیوں سے توبہ کرتے ہیں ایسے لوگوں سے اللہ رب العالمین محبت کرتا ہے ۔
حسی (ظاہری)گندگی سے مراد:
حسی گندگی سے مراد بدن کی گندگی ہے یعنی انسان اپنے بدن کی صاف صفائی رکھے اگر کوئی شخص مکمل طور پر اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجائے تو خود بخود وہ ظاہری ومعنوی دونوں گندگیوں سے پاک صاف ہوجائے اور بہت ساری بیماریوں سے بچ جائے کیونکہ اسلام ہمیں متعدد مواقع پر صاف صفائی کا حکم دیتا ہے حتیٰ کہ پانچ چیزیں ایسی ہیں جو اسلامی فطرت کا حصہ ہیں ختنہ کرنا، زیر ناف بال مونڈنا، مونچھیں چھوٹی کرنا، ناخن تراشنا اور بغل کے بال اکھیڑنا یا مونڈنا انہیں چالیس دنوں سے زیادہ نہیں چھوڑا جاسکتا ۔
اسی طریقے سے بہت سارے مواقع پر غسل کو مشروع کیا گیا۔ مثلاًجمعہ کا غسل ،عیدین کا غسل، میت کو نہلانے کے بعد غسل ، پاگل کے افاقہ کے وقت غسل، خروج منی کا غسل، جماع کے بعد غسل، حج وعمرہ میں بعض مقامات پر غسل، اسی طرح منہ کی صاف صفائی کے لئے جہاں متعدد مواقع پر مسواک کو مشروع قرار دیا وہیں دن بھر کی پانچ نمازوں کے لیے وضو ،جس میں ظاہری صفائی کے ساتھ ساتھ ناک میں پانی ڈال کر اندر تک کھینچنا اور تیزی کے ساتھ اسے جھاڑنا بھی شامل ہے، اسی طرح قرآن کی تلاوت کے لیے وضو ،دو مرتبہ جماع کرنے کے درمیان وضو ، بیوی سے ملاعبت کے وقت نکلنے والے مذی کے لئے وضو، اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو ،سونے سے قبل وضو ،سوکر اٹھنے کے بعد کسی برتن میں ہاتھ ڈالنے سے قبل ہاتھ دھلنا ،ناک جھاڑنا ،حتیٰ کہ ہمارے نبی ﷺ کا طریقہ یہ تھا کہ آپ ہمیشہ باوضو رہتے لہٰذا یہی ہر مومن کی شان ہونی چاہیے اگر انسان اس پر پابندی کے ساتھ عمل پیرا ہوجائے تو بہت ساری بیماریوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
معنوی (باطنی)گندگی سے مراد :
معنوی گندگی سے مراد عمل کی گندگی یعنی شرک وبدعات کفر ومعاصی کی گندگیوں سے اپنے آپ کو پاک کرے، اللہ کی طرف رجوع کرے،توبہ واستغفار کرے،جن مواقع پر اللہ کے رسول ﷺ سے دعائیں ثابت ہیں اپنی روزمرہ کی زندگی میں انہیں نافذ کرے،تہجد کا اہتمام کرے،مومن اس مصیبت پرصبر کرتے ہوئے اللہ سے اجروثواب کی امید رکھے، نفس کا محاسبہ کرے۔ہر ایک شخص کے عمل کا محاسبہ دوسرے شخص سے مختلف ہوسکتا ہے۔
کافر اپنے تمام معبودان باطلہ کی عبادت ترک کرے اورایک اللہ کی عبادت پر قائم ہوکر توحید پر ہمیشہ قائم رہنے کا عہد کرے، بدعتی اپنی ایجاد کردہ بدعات کو ترک کرکے اپنے نبی مکرم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے طریقے کو اپنا اسوہ بنائے، ظالم اپنے باغیانہ روش سے باز آئے، زانی زنا ترک کرے، چغل خور اوربندوں کے آپسی تعلقات میں رخنہ ڈالنے والا اپنا رویہ تبدیل کرے، غرضیکہ جو شخص جس برائی میں ملوث ہے اس سے توبہ کرے ،اس برائی کو بالکلیہ ترک کرے ،مستقبل میں کبھی نہ کرنے کا پختہ عہد کرے، اس طریقے سے جب بندہ باطنی گندگیوں سے اپنے آپ کو پاک کرلے گا تو اس کے نتیجے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے اس کا رشتہ مضبوط ہوجائے گا اور اللہ رب العالمین اپنی رحمت سے بہت سارے امراض کو ٹال دے گا۔
اللہ رب العالمین ہم تمام مسلمانوں کو ان امراض سے محفوظ رکھے آمین۔