Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • کیا معاویہ رضی اللہ عنہ نے حدیث ِرسول کی تاویل کی ؟ (قسط اول)

    امام عبد الرزاق رحمہ اللہ (المتوفی:۲۱۱) نے کہا:
    عن معمر، عن ابن طاؤس، عن أبي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم، عن أبيه، أخبره قال: لما قتل عمار بن ياسر دخل عمرو بن حزم على عمرو بن العاص، فقال: قتل عمار، وقد سمعت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يقول: تقتله الفئة الباغية فقام عمرو يرجع فزعا حتي دخل على معاوية، فقال له معاوية: ما شأنك؟ فقال: قتل عمار، فقال له معاوية: قتل عمار فماذا؟ قال عمرو: سمعت رسول الله ﷺ يقول: تقتله الفئة الباغية، فقال له معاوية: دحضت فى قولك، أنحن قتلناه إنما قتله على وأصحابه، جاء وا به حتي ألقوه تحت رماحنا – أو قال: بين سيوفنا –
    محمد بن عمرو رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:’’ کہ جب عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو عمروبن حزم رضی اللہ عنہ ، عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: عمار رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے ، اور میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: تم بے مطلب کی بات کرررہے ہو کیا ہم نے انہیں قتل کیا ہے ؟ انہیں تو علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے قتل کیا ہے ان کولے کر آئے اور ہمارے نیزوں کے بیچ ڈال دیا ۔
    [ الجامع ۔ معمر بن راشد:۱۱؍۲۴۰، مصنف عبد الرزاق:۱۰؍۲۷۸،ط التأصیل الثانیۃ]
    یہ روایت جھوٹی اور من گھڑت ہے ۔
    اس میں یہ بیان ہوا ہے کہ عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ جنگ صفین میں شامل تھے ، حالانکہ جنگ صفین سے بہت پہلے عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں ہی ان کا انتقال ہوگیا تھا ، مؤرخین نے اپنی تاریخی کتب میں بہت سارا کوڑا کباڑاکٹھا کردیا ہے لیکن کسی بھی مؤرخ نے جنگ صفین میں ان کی شرکت کا ذکر نہیں کیا ہے ۔اوراس کی وجہ یہی ہے کہ جنگ صفین سے پہلے ہی یہ صحابی اس دنیا سے رخصت کرگئے ۔
    بعض نے ان کی تاریخ وفات ۵۱ہجری کے آس پاس بتلائی ہے ، لیکن یہ غلط ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہی ان کا انتقال ہوگیا تھا۔ چنانچہ:
    امام إبراہیم بن المنذر الحزامی،المدنی رحمہ اللہ (المتوفی:۲۳۶) نے کہا:
    ’’ عمرو بن حزم يكني أبا الضحاك، توفي فى خلافة عمر بن الخطاب‘‘۔
    ’’ عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوالضحاک ہے اور عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ان کی وفات ہوئی ہے ‘‘۔
    [ معرفۃ الصحابۃ لأبی نعیم:۴؍۱۹۸۱، وإسنادہ صحیح وأخرجہ ابن عساکر فی تاریخ دمشق:۴۵؍۴۷۷من طریق أبی نعیم بہ ، وانظر: إکمال تہذیب الکمال:۵؍۵۲۴]
    امام أبو العباس محمد بن إسحاق الثقفی،رحمہ اللہ (المتوفی:۳۱۳) نے کہا:
    ’’ عمرو بن حزم يكني أبا الضحاك توفي فى خلافة عمر بن الخطاب بالمدينة ‘‘۔
    ’’ عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوالضحاک ہے اور مدینہ میں عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ان کی وفات ہوئی ہے‘‘۔
    [الأسامی والکنی لأبی أحمد الحاکم:۴؍۳۵۰، وإسنادہ صحیح]
    امام أبو أحمد الحاکم رحمہ اللہ (المتوفی:۳۷۸) نے بھی عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کے ترجمہ میں ان کی تاریخ وفات میں صرف ابوالعباس الثقفی کا مذکورقول ہی نقل کیا ہے :[الأسامی والکنی لأبی أحمد الحاکم:۴؍۳۵۰]
    مذکورہ ائمہ نے عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کی جو تاریخ وفات بتلائی ہے درج ذیل امور کی بناپر وہی راجح ہے۔
    اول: عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کے ایک پوتے امام ابوبکر بن محمد رحمہ اللہ ہیں یہ بہت بڑے عابد وعالم اور مدینہ کے قاضی وامیر تھے ۔
    نیز یہ صحیحین سمیت کتب ستہ کے ثقۃ رجال میں سے ہیں ،امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کے بارے میں لکھا ہے :
    ’’أحد الأئمة الأثبات‘‘‘ ،’’ یہ اثبات ائمہ میں سے ایک ہیں‘‘۔[سیر أعلام النبلاء للذہبی:۵؍۳۱۴]
    لیکن انہوں نے اپنے دادا عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کازمانہ نہیں پایا۔
    امام مزی رحمہ اللہ نے عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کے پوتے امام ابوبکر بن محمد رحمہ اللہ کے بارے میں لکھا ہے کہ:
    ’’وابن ابنہ أبو بکر محمد بن عمرو بن حزم ،ولم یدرکہ ‘‘۔
    ’’ابوبکر بن محمد رحمہ اللہ نے اپنے دادا عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کازمانہ نہیں پایا‘‘۔[تہذیب الکمال للمزی: ۲۱؍ ۵۸۶]
    حافظ مغلطای جو امام مزی کی غلطیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کرنکالتے ہیں انہوں نے بھی امام مزی کی اس بات پر کوئی نقد نہیں کیا ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ امام مزی کی یہ بات درست ہے۔
    عرض ہے کہ :
    یہ بات تبھی ممکن ہے جب ہم ان ائمہ کی بات مان لیں جنہوں نے عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کی وفات عہد فاروقی ہی میں بتلائی ہے ۔
    ورنہ اگر دوسرے اقوال کی بنیاد پر یہ مانیں کہ عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کی وفات ۵۱ ہجری میں ہوئی ہے تو پھر اس وقت ان کے پوتے امام ابوبکر بن محمدرحمہ اللہ کی عمر ۱۵ سال کی ہوگی،چنانچہ:
    امام ابن معین ، امام ابن المدینی ، امام ابوعبید سمیت جمہورمحدثین کے بقول ابوبکر بن محمد کی وفات ۱۲۰میں ہوئی ہے۔ [تہذیب الکمال للمزی:۳۳؍۱۴۲،الوافی بالوفیات للصفدی:۱۰؍۱۵۵]
    اور ان کی کل عمر۸۴سال بتلائی گئی ہے ۔[تہذیب الکمال للمزی:۳۳؍۱۴۲، الطبقات لابن سعد ت عبد القادر: ۵؍۳۳۶]
    اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کی تاریخ پیدائش ۳۶ ہجری ہے ۔یعنی اپنے دادا عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت یہ ۱۵ سال کے تھے ۔
    پھر یہ کہنا کیسے ممکن ہوگا کہ امام ابوبکر بن محمد رحمہ اللہ نے اپنے دادا اور صحابی رسول عمروبن ٖحزم رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا ۔
    ظاہر ہے کہ یہ تبھی ممکن ہے جب ان کے دادا عمروبن ٖحزم رضی اللہ عنہ کی وفات عہد فاروقی میں ہی ہوئی ہے جیسا کہ بعض محدثین نے صراحت کی ہے ،کمامضی ۔
    دوم: اگرعمروبن حزم رضی اللہ عنہ ۵۱ ہجری تک باحیات ہوتے تو اس دور کے صحابہ وتابعین سے جس طبقہ نے احادیث روایت کی ہیں ،وہ ان سے بھی روایت کرتے مگرکتب احادیث میں یہ ریکارڈ نہیں ملتا۔
    سوم: عمروبن حزم رضی اللہ عنہ ایک عظیم صحابی ہیں ، اللہ کے نبی ﷺ کے خاص عمال و دعاۃ میں سے ہیں اگر ایسی عظیم شخصیت نے جنگ صفین میں شرکت کی ہوتی تو اس بات کی شہرت ہوجاتی اور مؤرخین جنگ صفین کے واقعات میں ان کی شرکت کا تذکرہ ضرور کرتے ، مگرصفین کی تاریخ بیان کرنے والے کسی بھی مؤرخ نے صفین میں ان کی شرکت کا ذکر نہیں کیاہے ۔
    یہ تمام شواہد بتلاتے ہیں کہ انہیں ائمہ کی بات درست ہے جنہوں نے عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کی وفات عہد فاروقی میں بتلائی ہے ۔
    اس کے برخلاف جن اہل علم نے ان کی تاریخ وفات ۵۰ ہجری کے بعد بتلائی ہے وہ بعض ضعیف ومردود روایات کے سبب غلط فہمی کے شکار ہوئے ہیں ۔ مثلاً:
    (الف) اس سلسلے میں سب سے بڑی غلط فہمی محمدبن سیرین کی ایک ضعیف روایت سے ہوئی ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ عمروبن حزم رضی اللہ عنہ یزید کی ولی عہدی سے متعلق بات چیت کرنے کے لیے مدینہ سے شام معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔چنانچہ بعض اہل علم نے اسی روایت کا حوالہ دے کر ان کی تاریخ وفات۵۱ہجری کے بعد بتلائی ہے۔ چنانچہ:
    محمدبن عمر الواقدي كا بيان هے: ’’وبقي عمرو بن حزم حتي أدرك بيعة معاوية بن أبي سفيان لابنه يزيد، ومات بعد ذلك بالمدينة ‘‘۔
    ’’ اور عمروبن حزم رضی اللہ عنہ باحیات رہے یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب اپنے بیٹے یزید کے لیے ولی عہدی کی بیعت لی تو وہ دور بھی انہوں نے پایا اس کے بعد مدینہ میں ان کی وفات ہوئی‘‘۔
    [الطبقات الکبیر لابن سعد ت عمر:۵؍۳۱۸]
    عرض ہے کہ واقدی نے عہد معاویہ میں ان کی وفات کے لیے محمدبن سیرین سے منقول اسی واقعہ کو بنیاد بنایا ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ عمروبن حزم رضی اللہ عنہ ، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیعت یزید کے سلسلے میں بات کرنے کے لیے مدینہ سے شام گئے تھے ، اور پھر بات کرکے مدینہ واپس آئے۔
    اور اسی روایت کو بنیاد بناتے ہوئے دیگر کئی اہل علم بھی یہ بات کہتے گئے کہ عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کی وفات ۵۱ ہجری کے بعد ہوئی ہے۔
    ابن الأثیر (المتوفی :۶۳۰) لکھتے ہیں:
    وقيل: ’’إنه توفي فى خلافة عمر بن الخطاب بالمدينة، والصحيح أنه توفي بعد الخمسين، لأن محمد بن سيرين روي أنه كلم معاوية بكلام شديد لما أراد البيعة ليزيد‘‘۔
    کہا گیا ہے :’’کہ ان کی وفات عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوئی ، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ ۵۰ہجری کے بعد بھی باحیات رہے کیونکہ محمدبن سیرین نے روایت کیا ہے کہ انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے سختی سے بات کی جب انہوں نے یزید کی بیعت کا ارادہ کیا ‘‘۔
    [أسد الغابۃ ط العلمیۃ:۴؍۲۰۲]
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی۸۵۲) لکھتے ہیں:
    قال أبو نعيم: ’’مات فى خلافة عمر، كذا قال إبراهيم بن المنذر فى الطبقات۔ ويقال بعد الخمسين۔ قلت: وهو أشبه بالصواب، ففي مسند أبو يعلي بسند رجاله ثقات- أنه كلم معاوية فى أمر بيعته ليزيد بكلام قوي ‘‘۔
    امام ابونعیم نے کہا ہے :’’کہ عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کی وفات عمررضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہوئی ہے ، یہی بات امام ابراہیم بن المنذر نے طبقات میں کہی ہے ، اور کہا جاتا ہے کہ ۵۰ ہجری کے بعد ان کی وفات ہوئی ہے اور یہ بات درست لگتی ہے کیونکہ ابویعلی کی مسند میں ثقہ رجال کے ساتھ ایک روایت میں ہے کہ عمروبن حزم رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے یزید کی بیعت کو لے کر ٹھوس بات کی‘‘۔
    [الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ:۴؍۵۱۲]
    ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی محمدبن سیرین ہی کی روایت کی طرف اشارہ کیا ہے ،اور اس کے رجال کے ثقہ ہونے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ روایت منقطع ہے ۔
    البتہ یہ واقعہ ایک دوسری صحیح سند سے ثابت ہے لیکن اس میں عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کاذکر نہیں بلکہ ان کے بیٹے محمدبن عمرو رحمہ اللہ کاذکر ہے ۔اس کی پوری تفصیل ہم نے اپنی کتاب یزید بن معاویہ کے اخیرمیں بیان کردی ہے دیکھیں: (یزید بن معاویہ پر الزامات کا جائزہ: ص:۸۹۸ تا ۹۰۶)
    یادرہے کہ خود محمد بن عمر الواقدی نے بھی عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کی وفات عہد فاروقی میں بتلائی ہے جیساکہ حافظ مغطلای نے ان کی کتاب سے نقل کیا ہے۔[ إکمال تہذیب الکمال:۵؍۵۲۴]
    لیکن مذکورہ مردود روایت کو بنیاد بناکر واقدی نے یہ کہہ دیا کہ ان کی وفات یزید کی بیعت ولی عہدی کے بعد ہوئی ہے ۔
    (ب) امام ابن عساکر رحمہ اللہ (المتوفی۵۷۱) لکھتے ہیں:
    ’’ قال الهيثم حدثني صالح بن حبان عن ولد عمرو بن حزم أنه توفي سنة إحدي وخمسين‘‘۔
    ’’عمروبن حزم کے ایک لڑکے کا بیان ہے کہ ان کی وفات ۵۱ ہجری میں ہوئی ہے‘‘۔
    [تاریخ دمشق لابن عساکر: ۴۵؍۴۸۳]
    عرض ہے کہ اس سند میں ہیثم اور عمروبن حزم کے بیچ کسی بھی راوی کی توثیق نہیں ملتی ، توثیق تو درکنار کسی کا ترجمہ بھی نہیں ملتا ، لہٰذا یہ بات ثابت ہی نہیں ۔
    ہیثم کے علاوہ اس روایت کا ذکر کسی نے نہیں کیا ہے ، دیگر اہل علم جنہوں نے عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کی تاریخ وفات ۵۰ہجری کے بعد بتلائی ہے انہوں نے محمدبن سیرین والی ضعیف روایت پر ہی اعتماد کیا ہے جس کی وضاحت اوپر ہوچکی ہے۔
    اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ عمروبن حزم رضی للہ عنہ جنگ صفین کے وقت باحیات ہی نہ تھے ، لہٰذا جس روایت میں انہیں جنگ صفین میں شریک بتایا جارہا ہے وہ روایت جھوٹی اور من گھڑت ہے۔
    زیر بحث روایت کی سند پر بحث:
    اب رہی بات یہ کہ اگر یہ روایت جھوٹی ہے اوراس میں ایک ناممکن بات کا بیان ہے تو اس سند میں کس راوی سے چوک ہوئی ہے جس نے یہ روایت بیان کردی ۔
    توعرض ہے کہ یہ چوک اس سند میں موجود معمر بن راشد کی ہے کیونکہ دیگر کئی مواقع پر بھی ان سے اس طرح کی چوک ہوئی ہے ۔
    امام مروذی رحمہ اللہ (المتوفی۲۷۵)نے کہا:
    قلت : ’’كيف معمر فى الحديث ؟ قال : ثبت ، إلا أن فى بعض حديثه شيء ‘‘۔
    میں نے امام احمد سے پوچھا : ’’معمر حدیث میں کیسے ہیں؟ تو انہوں نے کہا؛ ثبت ہے مگر ان کی بعض احادیث محل نظر ہیں‘‘۔
    [العلل للأحمد روایۃ المروذی وصالح والمیمونی، ت الأزہری: ص:۴۶]
    امام ابن معین رحمہ اللہ (المتوفی:۲۳۳) نے کہا:
    ’’إذا حدثك معمر عن العراقيين فخفه؛ إلا عن الزهري، وابن طاووس، فإن حديثه عنهما مستقيم، فأما أهل الكوفة والبصرة فلا ‘‘۔
    ’’ جب معمر اہل عراق سے روایت کریں تو ان سے ڈر کررہو ، سوائے زہری اور ابن طاووس کی روایت میں ، کیونکہ ان دونوں سے ان کی روایت ٹھیک ہوتی ہیں ، لیکن اہل کوفہ وبصرہ کا ایسا معاملہ نہیں ہے‘‘۔
    [ تاریخ ابن أبی خیثمۃ، السفر الثالث:۱؍۳۲۵، وإسنادہ صحیح]
    معمر بن راشد کی بعض خاص مقامات پر یا بعض خاص مشائخ سے روایت پر کلام تو ہے ہی اس کے ساتھ جن رواۃ سے ان کی احادیث صحیح قراردی جاتی ہیں جیسے امام زہری وغیرہ تو ان سے بھی بعض دفعہ انہوں نے مبنی برغلط روایات حتیٰ کی جھوٹی روایات بھی بیان کردی ہیں ۔چنانچہ:
    ھمام بن منبہ سے معمر کی روایت بھی بہت بہتر سمجھی جاتی ہے ، لیکن اس طریق کی روایت میں بھی معمر سے غلطیاں ہوئی ہیں چناچہ اسی سلسلے کی ایک غلطی کی نشاندہی کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی:۸۵۲) فرماتے ہیں:
    ’’أخرجه الإسماعيلي من طريق بن المبارك عن معمر لكنه ساقه بلفظ رواية همام عن أبي هريرة ،وهو خطأ من معمر وإذا كان لم يضبط المتن فلا يتعجب من كونه لم يضبط الإسناد‘‘۔
    ’’ اسے اسماعیلی نے ابن المبارک کی سند سے معمر کے طریق سے روایت کیا ہے ، ھمام عن ابی ھریرہ کے الفاظ میں اور یہ معمر کی غلطی ہے ، اور معمر سے جب متن کے ضبط میں غلطی صادر ہوتی ہے تو سند کے بیان میں ان کا غلطی کرجانا کوئی تعجب کی بات نہیں‘‘۔
    [فتح الباری لابن حجر، ط المعرفۃ:۱۱؍۵۱۹]
    امام زہری سے ان کا لگاؤ اس قدر تھا کہ انہیں معمرالزھری بھی کہاجانے گا۔لیکن ان سے روایات میں بھی معمر نے غلطیاں کی ہیں ۔
    امام ابن أبی خیثمۃ رحمہ اللہ (المتوفی:۲۷۹) فرماتے ہیں :
    ’’سئل يحيي بن معين: عن حديث ابن علية، عن معمر، عن الزهري، عن سالم، عن أبيه: أن غيلان بن سلمة أسلم وعنده عشر نسوة ؟ قال: خطأ؛ إنما كان معمر أخطأ فيه ‘‘۔
    ’’ امام ابن معین رحمہ اللہ سے ابن علیہ کی حدیث عن معمر عن الزھری عن سالم سے متعلق پوچھا گیا تو ابن معین رحمہ اللہ نے کہا: یہ غلط ہے ، معمر نے اس میں غلطی کی تھی ‘‘۔
    [التاریخ الکبیر = تاریخ ابن أبی خیثمۃ ، السفر الثالث:۱؍۳۲۸]
    بلکہ معمر نے زہری کے طریق سے ایک جھوٹی اور من گھڑت حدیث بھی بیان کررکھی ہے۔ چنانچہ:
    أبو بکر أحمد بن جعفر القطیعی(المتوفی:۲۷۳) نے کہا:
    حدثنا أحمد بن عبد الجبار الصوفي قثنا أحمد بن الأزهر نا عبد الرزاق قال انا معمر عن الزهري عن عبيد اللّٰه بن عبد اللّٰه عن بن عباس قال : ’’بعثني النبى صلى اللّٰه عليه و سلم الي على بن أبي طالب فقال أنت سيد فى الدنيا وسيد فى الآخرة من احبك فقد احبني وحبيبك حبيب اللّٰه وعدوك عدوي وعدوي عدو اللّٰه الويل لمن ابغضك من بعدي ‘‘۔
    ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:’’ اللہ کے نبی ﷺ نے مجھے بھیج کر علی رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور ان سے کہا: تم دنیا و آخرت دونوں میں سردار ہو ، جو تم سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرے گا ، تمہارا محبوب اللہ کا محبوب ہے اور تمہارا دشمن اللہ کا دشمن ہے ، بربادی ہو اس کے لیے جو میرے بعد تم سے بغض رکھے ‘‘۔
    [فضائل الصحابۃ:۲؍۶۴۲، ومن طریق القَطِیعی أخرجہ ابن الجوزی فی العلل:۳۴۸عن أحمد بن عبدالجبار ، والطبرانی فی الأوسط :۴۷۵۱ عن عبدالرحمٰن بن سلم، وابن عدی فی الکامل:۱؍۳۱۷عن علیک الرازی ، واللالکائی فی (شرح أصول اعتقاد أہل السنۃ: رقم:۲۶۴۴) من طریق عبداللّٰہ بن محمد بن الحسن، والخطیب فی تاریخ بغداد:۵؍۶۸ من طریق أبی حاتم المکی، وأبی عمران موسی بن العباس الجوینی۔جمیعہم عن أبی الأزہر بہ]
    یہ ایک جھوٹی اور من گھڑت روایت ہے ، علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی کہا ہے :
    موضوع ، یہ حدیث من گھڑت ہے ۔[ سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ:۱۰؍۵۲۲]
    یہاں معمر نے اس روایت کو زہری سے نقل کیا ہے اورامام عبدالرزاق سے اوپرتمام رجال صحیحین کے رجال ہیں ، اس کے باوجود بھی ائمہ فن نے اس حدیث کو جھوٹی اور من گھڑت حدیث قراردیا ہے ۔یعنی محدثین کی نظر میں یہ حدیث اور صحیحین کی شرط پر اس کی یہ سند، دونوں من گھڑت ہے ، اورامام معمر نے وہم یاکسی دھوکہ کاشکارہوکراسے زہری سے اپنی مرویات میں بیان کردیا۔
    امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:۷۴۸)نے کہا:
    ’’هذا موضوع مع ثقة إسناده كأنه أدخل على معمر‘‘۔
    ’’ یہ حدیث رجال سند کے ثقہ ہونے کے باوجود بھی من گھڑت ہے ، گویا کہ معمر کی روایات میں اسے شامل کردیا گیا ہے ‘‘۔
    [ موضوعات المستدرک للذہبی: ص:۶ بترقیم الشاملۃ آلیا]
    امام زین الدین العراقی رحمہ اللہ (المتوفی:۸۰۶) لکھتے ہیں:
    ’’ وضرب امتحنوا بأولاد لهم أو وراقين فوضعوا لهم أحاديث ودسوها عليهم، فحدثوا بها من غير أن يشعروا ‘‘۔
    ’’ اور جھوٹی احادیث بیان کرنے والے کچھ محدثین ایسے ہیں جو اپنی ایسی اولاد اور ایسے وراقین سے دھوکہ کھاگئے جنہوں نے حدیثیں گھڑ کر ان محدثین کی احادیث کے ساتھ شامل کردیں ، پھر یہ محدثین نادانستہ طور پر ان احادیث کو بھی بیان کربیٹھے‘‘۔
    [شرح التبصرۃ والتذکرۃ ألفیۃ العراقی:۱؍۳۰۹]
    امام سیوطی رحمہ اللہ نے اس قسم کو ذکرتے ہوئے بطور مثال معمر کے رافضی بھتیجے کا قصہ ذکر کیا ہے جس نے معمر کے ساتھ اس طرح کی حرکت کی ہے۔[تدریب الراوی:۱؍۳۳۷]
    امام ابن الجوزی رحمہ اللہ (المتوفی:۵۹۷) نے کہا:
    ’’فالويل لمن تكلف فى وضعه إذ لا فائدة فى ذلك۔ أنا القزاز قال أخبرنا الخطيب قال أخبرني محمد بن أحمد بن يعقوب قال أنا محمد بن نعيم الضبي قال سمعت أحمد الحافظ سمعت أبا حامد بن شرقي سئل عن حديث أبي الأزهر فقال هذا حديث باطل والسبب فيه أن معمرا كان له ابن أخ رافضيا يمكنه من كتبه فأدخل عليه الحديث وكان معمر رجلا مهيبا لا يقدر عليه أحد فى السؤال والمراجعة‘‘۔
    ’’ بربادی ہو اس شخص کے لیے جس نے یہ روایت گھڑنے کی زحمت کی ہے کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے … اور اس حدیث کے بارے میں امام أبو حامد ابن الشرقی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۲۵) سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: یہ حدیث جھوٹی ہے ، اور اس سند سے اس کے بیان ہونے کا سبب یہ ہے کہ معمر کا ایک رافضی بھتیجا تھا جسے معمر اپنی کتاب دیا کرتے تھے ، تو اس نے معمر کی کتاب میں یہ حدیث درج کردی ، اور معمر چونکہ رعب دار شخص تھے اس لیے ان سے پوچھ تاچھ کی ہمت کوئی نہیں کرتا تھا‘‘۔
    [العلل المتناہیۃ فی الأحادیث الواہیۃ :۱؍۲۱۹]
    امام دارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۸۵) نے بھی اسے روایت کرکے أبو حامد ابن الشرقی کا قول نقل کیا ہے۔[العلل : ل:۱۶۱؍أ ، بحوالہ فضائل الصحابۃ بتحقیق دکتور وصی اللّٰہ عباس :۲؍۶۴۲ ، حاشیہ]
    بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ بے شک یہ حدیث جھوٹی ہے ، لیکن اس کی علت معمر یا عبدالرزاق کا وہم ہے ، اور معمر کے رافضی بھتیجے والی بات درست معلوم نہیں ہوتی ، کیونکہ اس سے معمر کا بالکل مغفل ہونا ثابت ہوتاہے اوران کی کتاب بھی مشکوک قرارپاتی ہے۔
    توعرض ہے کہ یہ دونوں اشکال اس وقت ہوتا جب اس رافضی بھتیجے نے پوری کتاب کے ساتھ بکثرت چھیڑ چھاڑ کی ہوتی ، کیونکہ ایسی صورت میں کتاب کا نقشہ ہی بدل جاتا اور پھر اس پرآگاہ نہ ہونا معمرکے لئے ایک سوالہ نشان ہوتا ۔ لیکن اس رافضی نے ایسا نہیں کیا ہے ، اول تو اس نے صرف رفض وتشیع سے متعلق روایات شامل کی ہیں ، دوسرے کہ یہ تصرف بھی بہت کم مقامات پر کیا ہے ، کیونکہ اتنی عقل تو اسے بھی ہوگی کہ پوری کتاب کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے معمر متنبہ ہوجائیں گے اور چوری پکڑی جائے گی ،لیکن معمر جیسے محدث جن کے پاس احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ ہو اور ان کااعتماد حفظ سے زیادہ کتاب پر ہو ، اوران کی شخصیت بارعب ہونے کے سبب ان کو کوئی ٹوکنے والا بھی نہ ہو ، توایسے محدث کی کتاب میں معمولی تصرف کی بآسانی گنجائش ہے۔
    تاہم اگر معمرکے رافضی بھتیجے کا قصہ درست نہ بھی مانیں تب بھی اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ کسی نہ کسی شخص کی یہ کارستانی رہی ہے جس نے موقع دیکھ کرمعمر کی احادیث میں یہ روایت شامل کردی ہے۔
    اس تفصیل کے بعد عرض ہے کہ جس طرح معمر نے اپنے خاص الخاص استاذ امام زہری کے طریق سے جھوٹی اور من گھڑت حدیث بیان کردی ہے ۔ ٹھیک اسی طرح انہوں نے ابن طاووس کے طریق سے بھی زیربحث من گھڑت روایت بیان کردی ہے ۔
    ان دونوں میں ایک مشترک چیز رفض وتشیع کا رشتہ ہے چنانچہ زہری والی روایت میں اہل بیت کی فضیلت میں جھوٹی حدیث بیان ہوئی ہے ، اور ابن طاووس والی روایت میں بنوامیہ کی مذمت میں ایک روایت بیان ہوئی ہے ، ان دونوں روایات کے پیچھے معمر کے وہم کے بجائے کسی رافضی کا کردار ہی ہوسکتا ہے ، جس نے بڑی چابک دستی سے معمر کی کتاب میں اس طرح کی پیوندکاری کی ہے ، ممکن ہے یہ دونوں کام معمر کے اسی رافضی بھتیجے کا ہو جس کی اس طرح کی حرکت کا ذکر محدثین نے کیا ہے۔
    بہرحال یہ بات تو متعین ہے کہ یہ روایت جھوٹی اور من گھڑت ہے ، خواہ یہ معمر کے وہم کا نتیجہ ہو ، یا ان کے رافضی بھتیجے نے ان کی کتاب میں تصرف کیا ہو۔
    جاری ہے ……

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings