-
ماہِ رمضاں اور احتسابِ نفس رمضان اپنے اختتام کی طرف رواں دواں ہے،آخری عشرہ کے پرکیف لمحے محو سفر ہیں،رمضان مع عبادات تقویٰ کا کامل نصاب ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:{ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرۃ:۱۸۳) ’’رمضان کے روزے اس لیے فرض کئے گئے ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ‘‘۔
متقی بننا آسان تو نہیں ہوتا لیکن رمضان یقینا تقویٰ سازی کا ایک کامیاب پروسیس ہے،تقویٰ کیا ہے؟معروف کے کاموں کو کرنا اور منہیات سے بچ جانا،غور کیجئے تو رمضان کے مہینے میں ہماری پوری جد و جہد ان دونوں اہداف کے گرد گھومتی ہے، صوم کا عمل،قیام کا عمل،تلاوت کا عمل،ذکر واذکار کا عمل،توبہ کا عمل،صدقۂ و خیرات کا عمل وغیرہ مل کر تقویٰ کے ایک حصے کی تکمیل بن جاتے ہیں اور زبان کے گناہوں سے پرہیز،آنکھوں کے گناہوں سے پرہیز،کانوں کے گناہوں سے پرہیز،کھانے پینے کی چیزوں سے پرہیز،،بطن و فرج کے تقاضوں سے پرہیز ،حرام کے ساتھ حلال چیزوں سے بھی اجتناب مل کر دوسرے حصے کی تکمیل کرتے ہیں،اس طرح سے رمضان مکمل تقویٰ کا ایک کورس ہے، اس میں کہیں کوئی نقص نہیں ہے،قادر مطلق نے تقویٰ کا ایک کامیاب نسخہ ترتیب دیا ہے،شرط یہ ہے کہ ایمان و احتساب کے ساتھ از اول تا آخر اسے برتا جائے۔
اس لیے ماہ رمضاں کو شعور کے ساتھ برتنے والے رمضان کے اختتام پر اپنا محاسبہ کرنا نہ بھولیں،وہ یہ ضرور جائزہ لیں کہ ہم مقصد کے حصول میں کامیاب ہوئے کہ نہیں؟ہمارے قلوب و جگر میں تقویٰ تشکیل پایا کہ نہیں؟یہ احتساب ہی سود و زیاں کا احساس دلاتا ہے،یہ خود احتسابی ہمیں بتاتی ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟تقویٰ کی پیمائش کا کوئی آلہ تو ہمارے پاس موجود نہیں ہے لیکن آپ یہ تو اندازہ کرسکتے ہیں کہ رمضان سے پہلے اور رمضان کے بعد کی زندگی میں فرق کیا واقع ہوا ہے؟یہی فرق معیار ہے اس غیر معمولی جذبے کی پیمائش کا جو زندگی کی تصویر بدل دیتا ہے،آپ یہ ضرور دیکھیں کہ رمضان سے پہلے آپ کی لائف سٹائل کیا تھی اور اب کیا ہے؟اذان کی آواز پر پہلے آپ کا رد عمل کیا تھا اور اب کیا ہے؟فجر کے لیے اٹھنا پہلے کتنا سہل تھا اور اب کتنا سہل ہے؟رمضان سے پہلے آپ کے گھر کا ماحول کیا تھا اور اب کیا ہے؟ٹی وی پر آپ پہلے کیا دیکھتے تھے اور اب آپ کے پسندیدہ پروگرام کیا ہیں؟پہلے موبائل پر آپ کی مشغولیات کیا تھیں اور اب کیا ہیں؟کیا گناہ کی طرف بڑھتے ہوئے آپ کے قدم اچانک رک جاتے ہیں؟کیا خلاف شرع بات کہنے سے پہلے کوئی چیز آپ کو روک دیتی ہے؟کیا بزنس اور تجارت میں دھاندلی اور بے اعتدالی سے حتی الامکان بچ کر چل رہے ہیں،آپ کے گفتار و کردار،نششت وبرخاست،لب ولہجے،چلت پھرت پر پہلے کے مقابلے میں اخلاقی رنگ کس قدر غالب ہے؟کیا میوزک سے آپ کو وحشت ہوتی ہے؟کیا خلاف شرع مناظر سے آپ کو تکدر ہوتا ہے؟اگر جواب اثبات میں ہے تو فبہا۔۔۔۔۔یقینا آپ نے رمضان سے تقویٰ کو جیت لیا ہے،اس ماہ مبارک کے لمحوں سے اپنے حصے کی سعادتیں کشید کرلی ہیں اور اگر جواب نفی میں ہے تو یہ افسوسناک امر ہے،یہ دین وایمان کا دیوالیہ ہے،اس ضیاع پر غور کرکے اصل اسباب تک رسائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
اس ضیاع کا ایک اہم سبب ہمارے رمضانی اعمال کا روحانیت سے خالی ہونا ہے،رمضان کو اپنے ڈھب اور طریقے سے انجام دینے کی روش ہے،یقین نہ آئے تو ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ایک طائرانہ نظر ڈالئے اور منظر نامہ سمجھنے کی کوشش کیجئے، رمضان خلوص، تعلق باللہ، انابت، یقین، للہیت، سوز، تڑپ اور حلاوت سے خالی ہوتا جارہا ہے، سب کچھ ظاہری رکھ رکھاو میں بدل گیا ہے، رمضان ایک تفریح اور انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ بن گیا ہے، ایک نشاط انگیز موسم بن گیا ہے جس میں لذت کام و دہن کے حسین مواقع فراہم ہیں،روزہ بھوک پیاس پر صبر کی مشق ہے لیکن یہاں دن میں تو روزہ ہے اور افطار کے بعد ’’چل شروع ہوجا‘‘ ہے…پھر چٹخاروں کا طویل سلسلہ چلتا ہے،کھانے کے شوق کی تکمیل کے ساتھ سونے کا بھی ریکارڈ توڑ سلسلہ پورے رمضان چلتا ہے،رمضان کے بعد عادت سدھارنے میں بھی کئی دن لگ جاتے ہیں،تراویح عبادت سے عادت میں تبدیل ہوگئی ہے،جیسے تیسے رکعتیں پوری کی جاتی ہیں،خشوع اور تعمق فی العبادہ مفقود ہے،افطار کا عمل افطار پارٹی میں تبدیل ہوگیا ہے،آخری عشرے میں گھمسان کا رن پڑتا ضرور ہے،لیکن عبادت میں محنت کی جگہ عید کی تیاری شباب پر ہوتی ہے،مسلم آبادی سمٹ کر بازار میں سماجاتی ہے،کالے برقعوں سے دکان اور راستے ڈھک جاتے ہیں،شب قدر پر شب برأت کا گمان گزرتا ہے، عبادت پر تجارت غالب آجاتی ہے،بازار کی چمک دمک کے سامنے مسجد کی رونق ماند پڑجاتی ہے،عبادت گزاری خریداری میں تبدیل ہوجاتی ہے،سب کی نظر عید کی تیاریوں پر ہوتی ہے’’وفي العَشْرِ الأوَاخِرِ منه ما لا يَجْتَهِدُ فى غيره‘‘ کی سنت رسول اپنا سامنہ لے کر رہ جاتی ہے،فیصلہ کریں کہ رمضان میں روزہ،قیام اور جملہ عبادتوں کے باوجود ہم ’’لعلكم تتقون‘‘ کے ہدف تک کیوں نہیں پہنچ پاتے ہیں اور رمضان کے بعد بھی ہماری زندگیوں میں نیکیوں کی بہار کی بجائے سرد مہری کی افسردہ ہوائیں کیوں لوٹ آتی ہیں؟درحقیت اصل رمضان کہیں کھو گیا ہے اور ہم اپنے خود ساختہ رمضان کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں،جی ہاں وہ خودساختہ رمضان جو ہمارے طبعیت کے مطابق ہے،جو ہماری رعایت کرتا ہے،اللہ ہم کو صحیح طور پر رمضان کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین