-
نبیﷺکا گیارہ رکعات سے زائد تراویح نہ پڑھنے کا راز الحمدللہ ہم نے اپنی کتاب’’ أنوار التوضیح لرکعات التراویح ‘‘مطبوعہ مکتبہ الفہیم میں یہ ثابت کیا ہے کہ نبی ﷺنے پوری زندگی میں کبھی ایک دفعہ بھی گیارہ رکعات سے زائد صلاۃ اللیل(تراویح)نہیں پڑھی ہے ، سترہ اور پندرہ کی عدد تو ثابت ہی نہیں ہے اور تیرہ والی روایت میں فجر یا عشاء کی سنت شمار کرلی گئی ہے جیسا کہ دیگر روایات میں یہ وضاحت آگئی ہے، اس سلسلے میں مکمل تفصیل ہماری کتاب ’’أنوار التوضیح لرکعات التراویح ‘‘میں ملاحظہ کی جاسکتی ۔
واضح رہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے گیارہ رکعات سے زائد صلاۃ اللیل تو کبھی نہیں پڑھی ہے لیکن گیارہ رکعات سے کم مثلاً نو(۹)یا سات (۷)رکعات پڑھی ہیں ، لیکن اکثر آپ ﷺ کا عمل گیارہ رکعات پر ہوتا تھا ، جیساکہ یہی تعداد اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نقل کی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ ﷺجب گیارہ رکعات سے کم بھی پڑھا کرتے تھے ، تو پھر زیادہ سے زیادہ رکعات پڑھنے کی صورت میں آپ ہمیشہ گیارہ رکعات ہی پر کیوں رک جاتے ؟ اس سے آگے مزید رکعتیں کیوں نہ بڑھاتے تھے ؟
تو اس کا راز یہ ہے کہ رات کی نماز میںطول قنوت افضل ہے ۔ چنانچہ صحیح مسلم کی حدیث ہے:
عن جابر، قال: قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم:’’أفضل الصلاة طول القنوت‘‘
جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:’’سب سے افضل ترین نماز وہ ہے جس میں قنوت لمبا ہو‘‘ [صحیح مسلم: رقم:۷۵۶ ]
یہاں قنوت سے بالاتفاق قیام مراد ہے امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’المراد بالقنوت هنا القيام باتفاق العلماء ‘‘
’’یہاں قنوت سے مراد قیام ہے اس پر اہل علم کا اتفاق ہے‘‘ [شرح النووی علی مسلم:۶؍۳۵]
معلوم ہوا کہ رات کی نماز میں قیام جس قدر طویل ہوگا ، نماز کی فضیلت بھی اسی قدر بڑھے گی ، بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ صلاۃ اللیل کی اصل روح طول قیام ہی ہے یہی وجہ ہے کہ اس نماز کا نام ہی قیام اللیل ہے یعنی طول قیام والی نماز ۔
اور گیارہ رکعات سے کم پڑھنے پر طول قیام برقرار رہتا ہے بلکہ اس میں اور اضافہ ہی ہوتا ہے ، لیکن گیارہ رکعات سے زائد پڑھنے پر طول قیام کما حقہ برقرار نہیں رہتا ، بلکہ بعض اہل علم کے بقول طول قیام کو کم کرنے ہی کے لئے بعض لوگوں نے تراویح میں گیارہ سے زائد رکعات کی ایجاد کی ہے، لیکن یہ بعض اہل علم کا محض اپنی ایجاد اور اجتہاد ہے اس پر کوئی نص موجود نہیں ہے بلکہ جابر رضی اللہ عنہ سے مروی طول القنوت والی نص اس کے خلاف ہے اسی لئے امام نووی رحمہ اللہ نے جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کی بناپر امام شافعی وغیرہ کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے :
’’وفيه دليل للشافعي ومن يقول كقوله إن تطويل القيام أفضل من كثرة الركوع والسجود‘‘
’’اس میں امام شافعی اوران کے موافقین کے اس موقف کی دلیل ہے کہ رات کی نماز میں طول قیام یہ کثرت رکوع و سجود سے افضل ہے‘‘ [شرح النووی علیٰ مسلم:۶؍۳۶ ]
اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ آخری عمر میں جب کمزور ہوگئے اور رات کی نماز میں زیادہ دیر کھڑے رہنا مشقت کا باعث بن گیا تو اس وقت بھی آپﷺ نے رکعات کی تعداد نہیں بڑھائی بلکہ ہر رکعت اس طرح پڑھتے کہ شروع میں بیٹھ کر طویل قرأت کرتے اور پھر کھڑے ہوکر بھی تیس یا چالیس آیات تک پڑھتے پھررکوع کرتے ۔
عن عائشة رضي اللّٰه عنها، أم المؤمنين، أنها أخبرته:’’أنها لم تر رسول اللّٰهﷺيصلي صلاة الليل قاعدا قط حتي أسن، فكان يقرأ قاعدا، حتي إذا أراد أن يركع قام، فقرأ نحوا من ثلاثين آية – أو أربعين آية ۔ثم ركع‘‘
اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ:’’ آپ نے رسول اللہﷺکو کبھی بیٹھ کر نماز پڑھتے نہیں دیکھا البتہ جب آپ ضعیف ہو گئے تو قرأت قرآن نماز میں بیٹھ کر کرتے تھے، پھر جب رکوع کا وقت آتا تو کھڑے ہو جاتے اور پھر تقریباً تیس یا چالیس آیتیں پڑھ کر رکوع کرتے‘‘ [صحیح البخاری :رقم:۱۱۱۸]
اس حدیث میں غور کریں کہ آپ ﷺ پر جب طول قیام شاق گزرا تو آپ ﷺ نے قیام کو مختصرکرکے رکعات کی تعداد نہیں بڑھائی بلکہ ایک ہی رکعت کے شروع میں بیٹھ کراور آخر میں قیام کرکے پڑھنا شروع کیا اس طرح آپﷺ نے طول قرأت کو برقرار رکھا جو کہ طول قیام کا اصل مقصد ہے ۔
٭ طول قیام اور طول وقت:
یادرہے کہ طول قیام اور طول وقت میں فرق ہے ان دونوں کو خلط ملط نہیں کرنا چاہئے مثلاً اگر کوئی شخص گیارہ رکعات پڑھتے ہوئے ایک گھنٹہ میں تراویح ختم کردیتا ہے اور کوئی بیس رکعات پڑھتے ہوئے ڈیڑھ گھنٹے میں تراویح ختم کرتا ہے ، تو وقت کی زیادتی کی وجہ سے بیس رکعات والے کی تراویح افضل قطعاً نہیں ہوسکتی کیونکہ اس کی تراویح میں صلاۃ اللیل کی روح طول قیام کی کمی ہے گرچہ وقت کی زیادتی ہے ۔اور طول قیام کی تو فضیلت ثابت ہے لیکن طول قیام کو کم کرکے محض طول وقت کی کوئی فضلیت منصوص نہیں ہے ۔
٭ طول قیام ، ثلث اللیل اور طول وقت:
ایک حدیث میں رات کی نماز کے سلسلے میں داؤد علیہ السلام کی نماز کو افضل بتاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ :
’’كان يرقد شطر الليل، ثم يقوم، ثم يرقد آخره‘‘
’’یعنی وہ آدھی رات سوتے تھے پھر بیدار ہوکرنماز پڑھتے تھے پھر سوجاتے تھے‘‘ [مسلم :رقم:۱۱۵۹]
اس حدیث کا صرف اتنا حصہ ہی مرفوعاً ثابت ہے ،اور اس میں صلاۃ اللیل کے لئے وقت کی مقدار کا بیان نہیں ہے ، لیکن اس حدیث کے راوی عمرو بن أوس الطائی نے اپنی طرف سے اندازے سے اس کی مقدار ثلث اللیل بتلائی ہے جیساکہ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ ابن جریج نے اپنے استاذ عمرو بن دینار سے پوچھا:
’’قلت لعمرو بن دينار:أعمرو بن أوس كان يقول: يقوم ثلث الليل بعد شطره؟ قال: نعم‘‘
ابن جریج کہتے کہ ’’:میں نے عمرو بن دینار سے پوچھا کہ کیا ثلث اللیل کے الفاظ عمرو بن أوس کی طرف سے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا:ہاں! ‘‘ [صحیح مسلم :۳؍۸۱۶، رقم :۱۱۵۹ ]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ صحیح مسلم کی اس حدیث کی بنیاد پر کہتے ہیں:
’’وظاهره أن تقدير القيام بالثلث من تفسير الراوي فيكون فى الرواية الأولي إدراج‘‘
’’اس روایت کا ظاہر یہی کہتا ہے کہ ثلث لیل کی مقدار راوی نے اپنے اندازے سے بیان کی ہے ، لہٰذا پہلی روایت میں یہ بات مدرج ہے‘‘ [فتح الباری لابن حجر، ط المعرفۃ:۳؍۱۷ ]
آگے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مرفوع ہونے کا بھی احتمال ذکرکیاہے لیکن یہ احتمال بعید اور مسلم کی مذکورہ روایت کے ظاہری الفاظ کے بر خلاف ہے ، نیز عمرو بن أوس کے علاوہ کسی دوسرے راوی نے یہ حدیث سرے سے بیان ہی نہیں کی ہے اس لئے ابن جریج کا استفسار اور عمروبن دینار کا جواب ادراج پر ہی دلالت کرتا ہے ۔
تاہم یہ مان بھی لیں کہ یہ مقدار مرفوعاً ثابت ہے تو بھی اس کی افضلیت صلاۃ اللیل کی روح طول قیام کے ساتھ مشروط ہوگی جیساکہ جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کا مفاد ہے۔
خلاصہ یہ کہ رات کی نماز میں خاص مقدار وقت کی فی نفسہٖ کوئی فضیلت ثابت نہیں ہے بلکہ طول قیام ہی کی فضیلت ثابت ہے ،لہٰذا مسنون رکعات اور طول قیام دونوں سے روگردانی کرتے ہوئے محض طول وقت کی وجہ سے کسی تراویح کو افضل قرار دینا بے بنیاد بات ہے۔
٭ حدیث صلاۃ اللیل مثنی مثنی کا مفہوم:
بعض حضرات ایک حدیث سے استدلال کرتے ہوئے یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ کی طرف سے صلاۃ اللیل میں مطلق رکعات پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے خواہ اس کی رکعات کتنی بھی ہوں ، یہ حدیث اس طرح ہے :
عن ابن عمر:’’أن رجلا سأل رسول اللّٰه ﷺعن صلاة الليل، فقال رسول اللّٰه ﷺصلاة الليل مثني مثني، فإذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر له ما قد صلي‘‘
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ:’’ ایک شخص نے نبی کریم ﷺسے رات میں نماز کے متعلق معلوم کیا تو آپﷺنے فرمایا کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہے پھر جب کوئی صبح ہو جانے سے ڈرے تو ایک رکعت پڑھ لے، وہ اس کی ساری نماز کو طاق بنا دے گی‘‘ [صحیح البخاری: رقم:۹۹۰ ]
اس حدیث میں صلاۃ اللیل کی غیر متعین تعداد کا ذکر نہیں ہے جیساکہ بعض نے سمجھ لیا ہے بلکہ اس میں صرف صلاۃ اللیل کی کیفیت کا ذکر ہے کہ ہر دو رکعت پر سلام پھیرا جائے جیساکہ ابن عمررضی اللہ عنہ ہی کی دوسری روایت میں بالکل صراحت ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے :
’’فقيل لابن عمر:ما مثني مثني؟ قال:أن تسلم فى كل ركعتين‘‘
’’ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ مثنی مثنی کا کیا مطلب ہے ؟ تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:یہ کہ تم ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیر دو‘‘ [صحیح مسلم :رقم:۷۴۹ ]
غور کریں یہاں ابن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ نہیں کہا ہے دو دو رکعات جتنی چاہو پڑھو ، بلکہ یہ کہا کہ ہردو رکعت کے بعد سلام پھیردو ، اس سے واضح ہے کہ اس حدیث میں تعداد رکعات کی بات نہیں بلکہ کیفیت رکعات کی بات ہے۔
بلکہ اس حدیث میں آگے جو یہ الفاظ ہیں:
’’فإذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر له ما قد صلي‘‘
’’جب کوئی صبح ہو جانے سے ڈرے تو ایک رکعت پڑھ لے، وہ اس کی ساری نماز کو طاق بنا دے گی‘‘
اس سے کثرت رکعات نہیں بلکہ قلت رکعات اور طول قیام ہی کی طرف اشارہ ملتا ہے ، کیونکہ جو مختصر اور چھوٹی چھوٹی نماز پڑھے گا اسے صبح کے تعلق سے کوئی ڈر لاحق ہوہی نہیں سکتا ، کیونکہ وہ تو چند منٹوں میں اپنی نماز ختم کررہا ہے ۔ اس طرح وہ زیادہ رکعات بھی پڑھ سکتا ہے اور دوران رکعت طلوع فجر کے اندیشے سے بھی بچ سکتا ہے۔
اس کے برعکس جو لمبی لمبی رکعات پڑھنے والا ہو تو وہ ایک تو بہت زیادہ رکعات نہیں پڑھ سکتا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ ہر رکعت لمبی لمبی ہونے کے سبب طلوع فجر کے خوف کا شکار ہوسکتا ہے۔
یاد کیجئے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے تیسرے دن جب نماز تراویح پڑھائی تھی تو قیام اتنا لمبا لمبا تھا کہ صحابہ نے اس خوف کا اظہار کیا :
’’حَتَّي تَخَوَّفْنَا الفَلَاحَ‘‘
’’ حتیٰ کہ ہمیں ڈر ہوا کہ فلاح (سحری)کا وقت نہ نکل جائے‘‘ [سنن الترمذی:۳؍۱۶۰،رقم:۸۰۶،واسنادہ صحیح ]
ظاہر ہے کہ یہ خوف اس وجہ سے نہیں ہوا تھا کہ دو دو کرکے بہت ساری رکعات پڑھی جارہی تھیں ،بلکہ یہ خوف صرف اس وجہ سے پیدا ہوا تھا کہ لمبی لمبی رکعات پڑھی جارہی تھیں۔
ایک ضعیف روایت:
بعض لوگ ایک صریح روایت پیش کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے گیارہ سے زائد رکعات پڑھنے کی اجازت دی ہے ، چنانچہ :
امام محمد بن نصر بن الحجاج المَرْوَزِی(المتوفی۲۹۴)نے کہا:
حدثنا طاهر بن عمرو بن الربيع بن طارق، قال:حدثني أبي، أخبرنا الليث، عن يزيد بن أبي حبيب، عن عراك بن مالك، عن أبي هريرة، قال:قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم:’’لا توتروا بثلاث تشبهوا المغرب، ولكن أوتروا بخمس أو بسبع، أو بتسع، أو بإحدي عشرة وأكثر من ذالك‘‘
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا:’’وتر کو مغرب کی طرح بناکر مت پڑھو ، بلکہ پانچ ، سات ، نو ، گیارہ یا اس سے زائد رکعات وتر پڑھو‘‘ [مختصر قیام اللیل لابن نصر: ص:۳۰۰، ومن طریقہ أخرجہ الحاکم فی المستدرک:۱؍۴۴۶، و أخرجہ أیضا أبو العباس الأصم فی مصنفاتہ: ص:۲۲۱،ومن طریقہ أخرجہ الحاکم فی المستدرک:۱؍۴۴۶، والبیہقی فی السنن :۳؍۴۶،والخطیب فی الموضح:۲؍۱۸۳، و أخرجہ أیضا ابن المنذر فی الأوسط:۵؍۱۸۰،کلہم ( ابن نصر والأصم وابن المنذر )عن طاہر بہ )]
عرض ہے کہ:
یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کا بنیادی راوی طاہر بن عمرو بن الربیع بن طارق نا معلوم التوثیق ہے ، کسی بھی امام فن سے اس کی توثیق نہیں ملتی ۔
علاوہ بریں اسی روایت کو عراک بن مالک کے طریق سے جعفر بن ربیعہ نے بھی روایت کیا ہے لیکن ان کی روایت میں گیارہ سے زائد پڑھنے کی بات نہیں ہے ۔ دیکھئے: [شرح معانی الآثار، ت النجار:۱؍۲۹۲،وإسنادہ صحیح ]
بلکہ اسی روایت کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ان کے دیگر شاگردوں نے بھی بیان کیا ہے ان کی روایت میں بھی گیارہ سے زائد پڑھنے کی بات نہیں ہے۔ دیکھئے: [التقاسیم والأنواع لابن حبان:۳؍۲۳۶،وإسنادہ صحیح ]
خلاصۂ کلام یہ کہ:
اللہ کے نبی ﷺ نے کبھی بھی گیارہ رکعات سے زائد صلاۃ اللیل نہیں پڑھی ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اس سے زائد پڑھنے سے قیام طویل نہیں رہ جاتا جو کہ صلاۃ اللیل کی اصل روح ہے ۔
اللہ کے نبی ﷺ کی کسی بھی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ محض طول وقت کی وجہ سے کوئی نماز تراویح افضل ہوسکتی ہے خواہ اس میں طول قیام ، طول قرأت اور مسنون عدد رکعات سب کو بالائے طاق رکھ دیاجائے۔
واضح رہے کہ برصغیر میں عمومی صورت حال یہ ہے کہ احناف بیس رکعات تراویح سے فارغ ہوکر گھر لوٹ جاتے ہیں لیکن اہل حدیث کی صرف آٹھ رکعات تراویح جاری رہتی ہے ۔