-
اذان کی اجرت سے متعلق وارد حدیث کی تحقیق وتخریج قسط(۱) عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے جس میں انہوں نے اللہ کے نبی ﷺ سے اپنی آخری ملاقات اور اس موقع سے اللہ کے نبی ﷺ کی وصیتوں کو ذکرکیا ہے۔ عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث کئی طرق سے مروی ہے اور اکثر طرق میں اذان کی اجرت کا ذکر نہیں ہے اور یہی صحیح ہے یعنی اس روایت میں اذان کی اجرت سے متعلق کوئی بات ثابت نہیں ہے۔
تاہم بالفرض اگر ان الفاظ کو صحیح وثابت تسلیم کرلیا جائے تو اس سے اذان پر اجرت کی حرمت نہیں بلکہ جواز ثابت ہوتا ہے۔
چنانچہ امام جورقانی رحمہ اللہ (المتوفی۵۴۳) فرماتے ہیں:
’’فإن صحت هذه اللفظة، كان فيه دليل على إباحة الأجرة، لأن فى قوله:اتخذ مؤذنا لا يأخذ على أذانه أجرا دليل أن هناك من يأخذ الأجرة، وإنما ذكره (كذا ولعل الصواب كره)ذلك، ولو كان ذلك على الزجر لقال لا تؤخذ على الأذان أو لا يجوز‘‘۔
اگر یہ الفاظ ثابت بھی ہوجائیں تو اس میں اجرت کے جواز کی دلیل ہوگی کیونکہ اللہ کے نبی ﷺکا یہ فرمانا کہ:ایسا مؤذن تلاش کرو جو اپنی اذان پر اجرت نہ لے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس وقت اجرت لینے والے بھی تھے لیکن آپ ﷺنے اسے پسند نہیں فرمایا، اگر یہ حرام قرار دینے کے لیے ہوتا تو آپ ﷺ یوں کہتے کہ:اذان پر اجرت نہ لی جائے یا اذان پر اجرت لینا ناجائز ہے ۔
[الأباطیل والمناکیر للجورقانی:۲؍۱۷۱،ما بین القوسین من الناقل]
لیکن حقیقت ہے کہ اذان پر اجرت والے الفاظ کے ساتھ یہ روایت ثابت ہی نہیں ہے ،اب آگے ہم اس حدیث کے تمام طرق کو دیکھتے ہیں۔
پہلا طریق : حسن بصری عن عثمان بن أبی العاص
امام ترمذی رحمہ اللہ (المتوفی۲۷۹)نے کہا:
حدثنا هناد قال:حدثنا أبو زبيد وهو عبثر بن القاسم،عن أشعث، عن الحسن، عن عثمان بن أبي العاص، قال: إن من آخر ما عهد إلى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: أن اتخذ مؤذنا لا يأخذ على أذانه أجرا۔
عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سب سے آخری وصیت رسول اللہ ﷺ نے مجھے یہ کی کہ موذن ایسا رکھنا جو اذان کی اجرت نہ لے ۔
[سنن الترمذی :رقم۲۰۹،وإسنادہ ضعیف ومن طریق الترمذی أخرجہ ابن الجوزی فی التحقیق :۱؍۳۱۵، وأخرجہ ابن أبی شیبۃ:۲؍۴۹۱،ومن طریق ابن أبی شیبہ أخرجہ ابن ماجہ: رقم۷۱۴،من طریق حفص بن غیاث ، وأخرجہ أیضا الحمیدی فی مسندہ :رقم۹۳۰، و الطبرانی فی معجمہ الکبیر :رقم۸۳۷۸،وأبونعیم فی حلیۃ الأولیاء:۸؍۱۳۴،من طرق عن فضیل بن عیاض کلاہما (حفص بن غیاث وفضیل بن عیاض)عن أشعث بہ]
یہ روایت درج ذیل علتوں کی بناپر ضعیف ومردود ہے۔
پہلی علت: حسن بصری رحمہ اللہ کے بارے میں کئی محدثین نے صراحت کی ہے کہ عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے ان کا سماع ثابت نہیں ہے ، چنانچہ:
امام حاکم رحمہ اللہ اللہ (المتوفی۴۰۵)نے کہا: ’’فإن الحسن لم يسمع من عثمان بن أبي العاص‘‘۔
’’حسن بصری نے عثمان بن ابی العاص سے نہیں سنا ہے ‘‘۔
[المستدرک للحاکم، ط الہند:۱؍۱۷۶]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی۸۵۲) نے کہا: ’’روي عن عثمان بن أبي العاص ومعقل بن سنان ولم يسمع منهم‘‘۔
’’حسن بصری نے عثمان بن ابی العاص اور معقل بن سنان سے روایت کیا ہے اور ان سے نہیں سنا ہے ‘‘۔
[تہذیب التہذیب لابن حجر، ط الہند:۲؍۲۶۴]
تنبیہ: بعض روایات میں یہ ذکر ملتا ہے کہ حسن بصری نے عثمان بن ابی العاص کو دیکھا ہے ان سے ملاقات کی ہے تو اس کا مطلب صرف یہ ہوسکتا ہے کہ ایسی ملاقات اور رویت میں حدیث کا سماع نہیں کیا ہے جیسا کہ ابن معین رحمہ اللہ کے کلام سے پتہ چلتا ہے ،چنانچہ امام ابن معین رحمہ اللہ (المتوفی ۲۳۳)نے کہا: ’’ويقال إنه ر أى عثمان بن أبي العاص‘‘۔
’’اور کہاجاتا ہے کہ انہوں نے عثمان بن ابی العاص کو دیکھا ہے‘‘۔
[تاریخ ابن معین، روایۃ الدوری: ۴؍۲۶۰]
دوسری علت: حسن بصری سے اس روایت کو نقل کرنے والا اشعث بن سوار ہے اور یہ ضعیف ہے ۔
محدثین کی ایک بڑی جماعت نے اسے ضعیف قرار دیا ہے ،مثلاً:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفی۲۴۱) نے کہا: ’’أشعث بن سوار ضعيف الحديث‘‘۔
’’ اشعث بن سوار ضعیف الحدیث ہے‘‘۔ [العلل ومعرفۃ الرجال لأحمد، ت وصی:۱؍۴۹۴]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی۸۵۲) نے کہا: ’’ ضعیف ‘‘۔ ’’یہ ضعیف ہے‘‘۔[تقریب التہذیب لابن حجر:رقم:۵۲۴]
دکتور بشار اور ان کی ٹیم نے اسی سبب اس روایت کو ضعیف قرار دیتے ہوئے لکھا:
’’إِسناده ضعيفٌ؛ أَشعث بن سَوَّار الكِندي ليس بثق‘‘۔
’’اس کی سند ضعیف ہے ، اشعث بن سوار کندی ثقہ نہیں ہے‘‘۔
[المسند المصنف المعلل:۲۰؍۹۷]
تیسری علت: اشعث بن سوار کے علاوہ حسن بصری کے دوسرے شاگردوں نے جب اسی حدیث کو روایت کیا تو اس میں اذان پر اجرت والی بات کا ذکر نہیں بلکہ دوسری بات کا تذکرہ کیا، ملاحظہ ہو دیگر شاگردوں کی روایات:
ہشام بن حسان کی روایت:
امام ابن ماجۃ رحمہ اللہ (المتوفی۲۷۳) نے کہا:
حدثنا إسماعيل بن أبي كريمة الحراني قال: حدثنا محمد بن سلمة،عن محمد بن عبد اللّٰه بن علاثة، عن هشام بن حسان، عن الحسن، عن عثمان بن أبي العاص، قال:قال رسول اللّٰه ﷺ: ’’إني لأسمع بكاء الصبي، فأتجوز فى الصلاة ‘‘۔
عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز ہلکی کر دیتا ہوں‘‘ ۔
[سنن ابن ماجہ: رقم۹۹۰،وإسنادہ صحیح إلی ہشام]
حمید بن ابی حمید کی روایت:
امام ابوداؤد رحمہ اللہ (المتوفی۲۷۵)نے کہا:
حدثنا أحمد بن على بن سويد يعني ابن منجوف، حدثنا أبو داؤد، عن حماد بن سلمة، عن حميد، عن الحسن، عن عثمان بن أبي العاص، أن وفد ثقيف لما قدموا على رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، أنزلهم المسجد ليكون أرق لقلوبهم، فاشترطوا عليه أن لا يحشروا، ولا يعشروا، ولا يجبوا، فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: لكم أن لا تحشروا، ولا تعشروا، ولا خير فى دين ليس فيه ركوع۔
عثمان بن ابوالعاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ثقیف کا وفد رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے اہل وفد کو مسجد میں ٹھہرایا تاکہ ان کے دل نرم ہوں، انہوں نے شرط رکھی کہ وہ مقابلہ کے لیے نہ اکٹھے کئے جائیں نہ ان سے عشر (زکاۃ)لی جائے اور نہ ان سے نماز پڑھوائی جائے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: خیر تمہارے لیے اتنی گنجائش ہو سکتی ہے کہ تم مقابلہ کے لیے نہ بلائے جاؤ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم سے زکاۃ نہ لی جائے (کیونکہ بالفعل سال بھر نہیں گزرا)لیکن اس دین میں اچھائی نہیں جس میں رکوع (نماز)نہ ہو ۔
[سنن أبی داؤد: ۳۰۲۶،وإسنادہ صحیح إلی حمید وأخرجہ أیضا أحمد فی مسندہ :رقم۱۷۹۱۳،من طریق عفان عن حمادبہ ]
عبیدۃ بن حسان کی بھی ایک روایت حسن بصری سے اجرت اذان کے ذکر کے بغیر مروی ہے مگر عبید تک سند صحیح نہیں ہے ۔دیکھیں: [المعجم الکبیر للطبرانی:۹؍۵۷]
خلاصہ یہ کہ اجرت اذان کے ذکر کے ساتھ یہ طریق ضعیف ومردود ہے۔
جاری ہے……