Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • جان کی حفاظت کا اسلامی تصور

    زندگی ایک ربانی نعمت اور الٰہی عطا ہے۔اس کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ نے مختلف قانونی اور فطری اسباب پیدا فرمائے ۔اور جب کبھی زندگی کی خاطر کسی شخص کے سلب حیات کا مسئلہ درپیش ہوا تو اسلام نے اسے افراد کے اختیار میں نہیں رکھا، بلکہ نظام کائنات کے تحت یہ مسئلہ قانون فہم ا داروں اور تنفیذی قوت رکھنے والے ذمہ داروں کے حوالے کیا، کہ جس جان کو زندگی کا حق ملا ہوا تھا اب اسے ختم کرنے کی قانونی اجازت کا نفاذکس طرح ہونا ہے۔
    قانون قصاص ہو، قانون حدود ہو، قانون تعزیر ہو ، یا قانون جنگ، ہر ہر چیز ایک نظام کی صورت ہے اور ہر نظام میں ایک ہی روح کارفرما ہے کہ انسانی زندگی بہت قیمتی ہے، اسے ہرگز ضائع نہیں کیا جاسکتا ہے۔
    ایک شخص نے کسی آبرو سے بھرپور وجود کا خون کیا ہے ،سماج کے اجتماعی ضمیر کو شعلہ زن کرنے کا مرتکب ہوا ہے، اس کے لیے اسلام میں جو سزا ہے وہ رجم کی سزا ہے لیکن اس کے نفاذ میں قانونی مسائل کا ایک محکم سلسلہ ہے جسے عبور کیے بغیر کوئی اسلامی حکومت بھی زانی کی زندگی چھیننے کی مجاز نہیں ہوسکتی ۔
    حالانکہ غیرت ایک قطعی فطری جذبہ ہے اس جذبے کو خود اسلام نے ہر رنگ میں نکھارا ہے، اسے قوت بخشی ہے، اس کی ترغیب دی ہے اور مختلف ناموں اور شکلوں میں اسے پروان چڑھایا ہے۔بایں ہمہ اگر کوئی شخص کسی دوسری خاتون کو نہیں بلکہ اپنی ہی بیوی کو نازیبا صورت میں کسی مرد کے ساتھ کھلی آنکھوں سے دیکھ لے پھر بھی اسلام اسے یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ از خود کوئی کارروائی کرسکے اور یہی وجہ ہے کہ اس مشکل ترین صورت حال کے لیے اسلام میں لعان کا قانون جاری کیا گیا۔
    دراصل اسلام میں حفظ جان کا تصور انتہائی گہرا ہے۔اسلامی سماج کے لباس میں اس تصور کی بنیاد بڑی پختہ اور گہری ہے فکر اسلامی کی جڑوں میں حفظ جان کا مسئلہ مٹی اور پانی کی حیثیت رکھتا ہے۔اتنے گہرے تصور پر اگر کوئی چوٹ کرتا ہے اور کسی بے گناہ کو قتل کرکے اس تصور حسیں کا پیراہن تارتار کردیتا ہے تب بھی کسی شخص کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ ازخود قصاص یا کسی اور قسم کی غیرت مندانہ کارروائی کرسکے۔
    اس سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام میں جان کا معاملہ کتنا سنگین اور اہم ہے۔ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل سے تعبیر کرنا کوئی معمولی بیانیہ نہیں ہے۔دوسرے دھرموں کی طرح اسلام یہ ہرگز نہیں کہتا کہ منزل ایک ہے اور راستے جدا ہیں بلکہ اسلام کہتا ہے حق اور سچ صرف اسلام ہے باقی سب غلط ہیں۔یہ دو ٹوک بیانیہ ہے اسلام کا!!!اس کے باوجود حفظ جان کا جب مسئلہ آتا ہے تو اسلام ہر ہر جان کی وکالت کرتے ہوئے نظر آتا ہے کہ ایک انسان کا قتل انسانیت کا قتل ہے۔اس تناظر میں بھی اسلام کا موقف بڑی گہرائی تک سمجھا جاسکتا ہے۔
    موجودہ دور میں ملیشیات اور آتنکی سنگٹھنوں کا جو منافقانہ نظام ہے اسلام نے اسے کبھی بھی منظور نہیں کیا امن کا اختیار عوام کو ضرور دیا مگر جنگ کی بابت کوئی اختیار کسی کو ہرگز ہرگز نہیں دیا ،ایک مسلمان کو یہ اختیار تو ہے کہ وہ کسی خارجی شخص کو پناہ دے دے لیکن یہ اجازت ہرگز نہیں ہے کہ کسی مسلم یا غیر مسلم کو قتل کرکے فساد برپا کرے، اس قتل کے لیے خواہ کتنے ہی ضروری اسباب اس کے پاس کیوں نہ ہوں۔ہاں ایک انسان کو اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کے دفاع کا ضرور حق ہے۔اپنا ڈیفیننس محض حق نہیں ہے بلکہ فریضہ ہے۔یہ حق صرف اسلام نہیں ملک کا قانون بھی دیتا ہے کہیں ملک میں کوئی دہشت گردانہ واقعہ ہو جائے، آتنکی گُٹ آپ کو ہراساں کرے، موت سامنے نظر آرہی ہو تو پھر موت کا ہی گلا دبوچنے کی بہادری ضرور پیدا کرنی چاہیے ،جب جان جانی ہی ہے تو دشمن کی کمر توڑے بغیر شہر خموشاں کی چادر نہیں اوڑھنی بلکہ ظالم بزدل کے طمنچے سے ظالم کا سر لہو لہان کردینا چاہیے۔ڈرپوک بھیڑ کے ڈنڈے سے ایسی جگہ وار کیا جاتا ہے کہ دوبارہ ایسی حرکت کرنے سے پہلے ہزار بار سوچنا پڑ جائے۔
    دنیا میں اس وقت جو دہشت گردانہ حملے کرنے والے گروہ اور جماعتیں ہیں وہ کسی بھی قوم اور مذہب سے منسوب ہوں وہ سچے معنیٰ میں مذہبی نہیں ہیں۔وہ قطعاً سیاسی ہیں اور دنیا کی بڑی طاقتیں ایسے گروہ یا تو پیدا کرتی ہیں یا اس طرح کی جماعتوں کو اپنے مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ان کی نام نہاد مذہبی فکر کا اگر جائزہ لیا جائے تو وہ نسل پرستانہ فکر، نازی ازم، خارجی طبیعت اور انتہاپسندانہ سوچ جیسی چیزوں کا ملغوبہ ہوگا۔دنیا میں جن حکومتوں نے غنڈہ، موالی اور آتنکی افراد کا سپورٹ کیا بعد میں وہی لوگ قانون اور انتظام کے لیے راہ کا روڑا بن گئے۔اس لیے دنیائے انسانیت کے تمام تنفیذی اداروں کو اس پہلو پر خاص توجہ دینی چاہیے۔
    رہا معاملہ اسلام کا تو اسلام ایسی کسی فکر کی ہم نوائی نہیں کرتا بلکہ ایک متوازن اور کھرے نظام کی دعوت دیتا ہے۔اس میں نفاق، سریت یا انڈر گراؤنڈ جیسی کسی چیز کا وجود ہی نہیں ہے۔ہونا یہ چاہیے کہ ہمارے ادارے اسلام کا گہرا مطالعہ کریں تاکہ انہیں مکمل اسلامی نظام اپنے حقیقی تناظر کے ساتھ سمجھ میں آسکے۔
    ٭٭ ٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings