-
امت مسلمہ کی وسطیت(آٹھویں قسط) دوسری امتوں کے درمیان امت مسلمہ کی وسطیت مندرجہ ذیل امور میں واضح ہوتی ہے:
٭ أولاً: اللہ کی وحدانیت اور اس کی صفات میں امت مسلمہ کی وسطیت:
امت مسلمہ یہود و نصاریٰ کے درمیان وسطیت کی حامل ہے، جہاں ایک طرف یہود نے اللہ تعالیٰ کو ایسے بہت سارے نقائص سے متصف کیا، جو مخلوق کے ساتھ مختص ہیں، یہاں تک کہ مخلوق سے تشبیہ دے دی، اور کہا:’’وہ بخیل ہے، فقیر ہے، جب تھک جاتا ہے تو آرام کرتا ہے، انسانوں کی صورت اختیار کرتا ہے، وغیر ذالک‘‘، اور نصاریٰ نے مخلوق کے لئے خالق عز وجل کی صفات کو ثابت کیا، اس کو اللہ کے ساتھ تشبیہ دی، اور کہا :’’اللہ مسیح ابن مریم ہے، اور مسیح اللہ کا بیٹا ہے، وہ پیدا کرتاہے، رزق دیتا ہے، معاف کرتا ہے، رحم کرتا ہے، ثواب دیتا ہے، اور سزا دیتا ہے‘‘ دیکھیں: [وسیطۃ أہل السنۃ للدکتور محمد باکریم: ص:۲۳۸۔۲۵۷]
وہیں دوسری طرف مسلمانوں کی وسطیت بایں طور پر ظاہر ہوتی ہے کہ انہوں نے اللہ کو ایک مان لیا، اسے صفات کمال سے متصف کیا، تمام تر صفات نقائص سے اس کی تنزیہ کی، کسی بھی صفت میں کوئی مخلوق اس کا مماثل نہیں، اور کہا: ’’اللہ کی طرح کوئی چیز نہیں، نہ تو اس کی ذات میں، نہ اس کی صفات میں، اور نہ ہی اس کے افعال میں‘‘دیکھیں: [منہاج السنۃ النبویۃ لابن تیمیۃ:۵؍۱۶۸۔۱۶۹]
٭ ثانیاً: اللہ عز وجل کے انبیاء اور اس کے رسل کے بارے میں امت مسلمہ کی وسطیت:
یہود نے انبیاء کو قتل کیا، ان کی ہر طرح سے عیب جوئی کی، انہیں اذیت پہنچائی، اور ان کی تابعداری سے روگردانی کی۔
نصاریٰ نے بعض انبیاء کے بارے میں غلو سے کام لیا، اللہ کو چھوڑ کر انہیں اپنا رب مان لیا، یہاں تک کہ مسیح علیہ السلام کو اپنا معبود تسلیم کیا۔دیکھیں:[وسیطۃ أہل السنۃ للدکتور محمد باکریم:ص:۲۴۸:۲۶۰۔۲۷۷]
جب کہ مسلمانوں کی وسطیت اس مسئلہ میں یوں ظاہر ہوتی ہے کہ انہوں نے انبیاء کو ان کی جگہ پر رکھا، ان کی عزت کی، ان کی تصدیق کی، ان سے محبت کی، ان کی اطاعت کی، ان پر ایمان لائے کہ وہ اللہ عز وجل کے بندے ہیں، خوشخبری سنانے والے، اور ڈرانے والے رسل ہیں، انہوں نے نہ تو ان کی عبادت کی، اور نہ ہی اللہ کو چھوڑ کر انہیں اپنا رب تسلیم کیا، کیونکہ وہ نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں، اور نہ ہی وہ غیب کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔دیکھیں:[وسیطۃ أہل السنۃ للدکتور محمد باکریم: ص:۲۳۸:۲۷۷۔۲۸۴]
٭ ثالثاً: شرائع میں امت مسلمہ کی وسطیت:
شرائع میں بھی امت مسلمہ یہود و نصاریٰ کے درمیان وسطیت کی حامل ہے۔
یہود نے اس بات کا انکار کیا کہ خالق عز وجل کسی رسول کو موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے بغیر بھیج سکتا ہے، اور کہا کہ :’’یہ جائز ہی نہیں کہ اللہ اپنی نافذ کردہ شریعت کو منسوخ کرے، یا جو چاہے مٹا دے، یا پھر جو چاہے ثابت کرے ‘‘
اور نصاریٰ نے اپنے احبار و رہبان کے لئے یہ جائز قرار دیا کہ وہ اللہ کے دین کو بدل سکتے ہیں، لہٰذا انہوں نے من مانی کرتے ہوئے اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دیا، جبکہ حلال شدہ چیزوں کو حرام قرار دیا۔ دیکھیں:[وسیطۃ أہل السنۃ للدکتور محمد باکریم: ص:۲۳۹]
لیکن مسلمانوں نے کہا:’’خلق اور امر اللہ کے اختیار میں ہے، چاہے تو وہ کسی چیز کو ختم کردے، اور چاہے تو وہ کسی چیز کو برقرار رکھے، اللہ کے نبی ﷺ کی زندگی میں نسخ جائز تھا، البتہ ان کی وفات کے بعد کسی بھی مخلوق کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ امر الہٰی کو بدلے، چاہے وہ کتنی ہی قدر و منزلت کو پہنچا ہوا ہو‘‘
٭ رابعاً: حلال و حرام میں امت مسلمہ کی وسطیت:
حلال و حرام کے معاملے میں بھی امت مسلمہ یہود و نصاریٰ کی بنسبت راہ اعتدال پر قائم ہے۔
یہود نے اپنے لئے بہت ساری حلال و مباح چیزوں کو حرام قرار دیا۔دیکھیں:[وسطیۃ أہل السنۃ للدکتور محمد باکریم: ص:۲۳۹] جیسے:
أ۔ حضرت اسرائیل-یعقوب علیہ السلام-نے اپنے نفس پر چند چیزوں کو حرام قرار دیا، اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں اس آیت کریمہ کے اندر فرمایا:
{كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ إِلَّا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِيلُ عَليٰ نَفْسِهِ مِن قَبْلِ أَن تُنَزَّلَ التَّوْرَاةُ}
’’بنی اسرائیل کے لئے تمام کھانے حلال تھے، سوائے چند چیزوں کے جنہیں اسرائیل نے اپنے نفس پر حرام کر لیا تھا، (اور یہ بات)نزول تورات سے پہلے کی ہے‘‘[سورۃ آل عمران:۹۳]
ب۔ بنی اسرائیل کے ظلم و زیادتی کی بناء پر اللہ عز وجل نے ان پر بہت ساری چیزوں کو حرام کر دیا تھا۔جیسا کہ فرمایا:
{فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِینَ ہَادُوا حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ طَیِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَہُمْ وَبِصَدِّہِمْ عَن سَبِیلِ اللّٰہِ کَثِیرًا}
’’یہودیوں کے ظلم کی وجہ سے ہم نے ان پر بہت ساری مباح چیزوں کو حرام قرار دیا، جو ان کے لئے حلال شدہ تھیں، اور اس وجہ سے بھی کہ انہوں نے بہت سارے لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکا‘‘[سورۃ النساء:۱۶۰]
اور نصاریٰ نے محرمات کی اباحت میں زیادتی کی، چنانچہ انہوں نے ان امور کو حلال قرار دیا، جن کی حرمت میں تورات کے نصوص دلالت کرتے ہیں، اور نہ مسیح علیہ السلام ان کی اباحت کا حکم لے کر آئے، لہٰذا وہ خبائث سمیت تمام محرمات کو حلال سمجھ بیٹھے، جیسے:مردے، خون، اور سور کا گوشت وغیرہ [کتاب الصفدیۃ لابن تیمیۃ:۲؍۳۱۳]
جہاں تک مسلمانوں کی بات ہے تو انہوں نے ان تمام پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیا ہے، جنہیں اللہ یا اس کے رسولﷺان کے لئے حلال کیا ہے، اور ان تمام ناپسندیدہ چیزوں کو حرام قرار دیا ہے، جو ان کے لئے حرام کی گئی ہیں، جیساکہ اللہ نے ان کے بارے میں فرمایا: {اَلَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ} ’’جو لوگ اس رسول، نبی امّی(ان پڑھ)کی اتباع کرتے ہیں جنہیں اپنے پاس تورات و انجیل میں مکتوب پاتے ہیں، جو ان کو بھلائی کا حکم دیتے ہیں، اور انہیں برائی سے روکتے ہیں، اور ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں، اور ان پر غیر پسندیدہ چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں‘‘[سورۃ الأعراف:۱۵۷]
٭ خامساً: عبادت میں امت مسلمہ کی وسطیت:
امت مسلمہ عبادت کے مسائل میں بھی یہود و نصاریٰ کے درمیان وسطیت کی حامل ہے۔
یہود کو تو علم حاصل ہوا، لیکن انہوں نے عمل نہیں کیا، لہٰذا وہ غضب الہٰی کے شکار ہوئے، انہوں نے عبادات سے منہ موڑا، اللہ کی اطاعت سے روگردانی کی، خواہشات کی پیروی کی، مادیت کے لئے اپنے ہی نفس کی عبادت کی، اور دنیا کی خاطر اپنے دین و آخرت کو تیغ دیا۔دیکھیں:[وسطیۃ أہل السنۃ للدکتور محمد باکریم: ص:۲۴۰]
اور نصاریٰ کو علم ہی حاصل نہ ہوا، جہالت کی بنیاد پر اللہ کی عبادت کی، لہٰذا وہ گمراہ ہوگئے، رہبانیت میں غلو کیا، اور ایسی بہت ساری بدعتوں کے ذریعے عبادت کی جن کے لئے کوئی دلیل نہیں، چنانچہ انہوں نے لوگوں کو چھوڑ کر گرجا گھروں کی طرف رخ کیا، اور ان کے رہبان نے عبادت کے لئے گوشہ نشینی اختیار کی، اور اپنے نفس پر ایسی بہت ساری چیزوں کو لازم قرار دیا، جو جسم و جان کے لئے بے حد مشکل، اور انسانی فطرت کے عین مخالف ہیں، اسی لئے وہ ان کی ادائیگی کی تاب نہ لا سکے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا:
{وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَائَ رِضْوَانِ اللّٰهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا}
’’اور رہبانیت کو انہوں -امت نصاریٰ- نے خود سے ایجاد کیا، جسے ہم نے ان پر فرض نہیں کیا تھا، ہاں مگر انہوں نے اللہ کی رضا جوئی کی خاطر اسے ایجاد کیا، لیکن وہ اسے بخوبی انجام نہ دے سکے‘‘[سورۃ الحدید:۲۷]
رہی بات مسلمانوں کی تو انہوں نے علم حاصل کیا، اس پر عمل کیا، یہی وہ لوگ ہیں، جن پر اللہ نے انعام کیا ہے، احکام شریعت کے مطابق صرف ایک اللہ کی عبادت کی، (دوسروں کی طرح)خواہشات و بدعات کے ذریعے اس کی عبادت نہیں کی۔دیکھیں:[الوسطیۃ فی الاسلام۔تعریف وتطبیق۔ للدکتور زید الزید، ص:۴۶۔۵۱]
اور نہ اپنے دنیاوی حصے کو فراموش کیا، اور اس میں انہوں نے اپنے رسول ﷺکو اپنا قدوہ و آئیڈیل تسلیم کیا۔
نوٹ: اس مضمون کا بیشتر حصہ استاذ محترم دکتور عبد القادر عطا صوفی؍حفظہ اللہ کی کتاب ’’المفید فی مہمات التوحید ‘‘ سے مستفاد ہے۔