-
متقدمین کے نزدیک ناصبیت کی تہمت لگانا رافضیت کی علامت ہے۔ آج کل ہراس شخص کولوگ سنّی سمجھ بیٹھتے ہیں جو دوسروں پر ناصبیت کا فتویٰ جڑ دے ، لیکن معلوم ہونا چاہئے کہ دوسروں پر ناصبیت کا فتویٰ لگانے والے اکثر رافضی ہوتے ہیں ،اورناصبیت کی اصطلاح رافضیوں ہی کی ایجاد کردہ ہے، تیسری صدی ہجری تک کسی بھی سنی عالم نے کسی دوسرے سنی عالم کوناصبی نہیں کہا ہے ، بلکہ اس دور میں اگر کوئی شخص کسی کو ناصبی کہتا تھا تو یہ اس کے رافضی ہونے کی دلیل سمجھی جاتی تھی ۔
امام علی بن المدینی رحمہ اللہ (المتوفی:۲۳۴)سے منقول ہے: ’’ومن قال:فلان ناصبي علمنا أنه رافضي‘‘
’’جو کہتا تھا کہ فلاں ناصبی ہے تو ہم جان لیتے تھے کہ وہ رافضی ہے‘‘ [شرح أصول اعتقاد أہل السنۃ :۱؍۱۶۶]
اس کی سند کے بعض رواۃ کا ترجمہ نہیں مل سکا مگر علی بن المدینی رحمہ اللہ کے شاگرد امام أبو حاتم الرازی (المتوفی:۲۷۷) نے بھی یہی بات کہی ہے اور اسے اپنے دور کے تمام علماء کی طرف منسوب کیا ہے ، کماسیاتی ، اس سے اس نقل کی تائید ہوتی ہے ، کیونکہ ظاہر ہے کہ اس نسبت میں ان کے استاذ علی بن المدینی رحمہ اللہ بدرجہ اولیٰ شامل ہیں۔
امام أبو حاتم الرازی (المتوفی:۲۷۷)اور امام أبو زرعہ الرازی (المتوفی:۲۶۴)رحمہما اللہ نے کہا:
’’وعلامة الرافضة تسميتهم أهل السنة ناصبة‘‘
’’رافضیوں کی علامت یہ ہے کہ وہ اہل سنت کو ناصبی کہتے ہیں ‘‘[شرح اعتقاد أہل السنۃ للالکائی:۱؍۲۰۱،وإسنادہ صحیح ، أصل السنۃ واعتقاد الدین للرازیین:(ق؍۱۶۸ب)وإسنادہ صحیح وانظر:تکحیل العینین:ص :۲۲۲]
یادرہے کہ یہ صرف ان دو ائمہ ہی کا کہنا نہیں ہے بلکہ ان کے دور کے تمام علماء کا یہی ماننا تھا ، جیساکہ امام ابوحاتم رازی اور امام ابوزرعہ رازی نے یہ بات کہنے سے پہلے اس کی صراحت اس طرح کی ہے:
’’أدركنا العلماء فى جميع الأمصار حجازا وعراقا وشاما ويمنا فكان من مذهبهم…‘‘
’’ہم نے تمام شہروں ، حجاز ، عراق ، شام ، یمن کے علماء کو پایا ہے ان سب کا ماننا یہ تھا کہ … (حوالہ مذکور)
امام أبو محمد الحسن بن علی بن خلف البربہاری (المتوفی:۳۲۹)نے کہا:
’’وإذا سمعت الرجل يقول: فلان ناصبي فاعلم أنه رافضي‘‘
’’جب تم کسی شخص کو کہتے ہوئے سنو کہ:فلاں ناصبی ہے ، تو جان لو کہ وہ رافضی ہے‘‘ [شرح السنہ للبربھاری :ص:۱۱۸، طبقات الحنابلۃ:۲؍۳۶]
لہٰذاآج بھی کسی کی زبان سے ناصبی کالفظ سنائی دے تو اس کے بارے میں اچھی طرح تفتیش کرلینا چاہئے۔