Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • کیا امیر معاویہ نے بغض علی رضی اللّٰہ عنہ میں سنت رسول کو ترک کردیا؟

    امام نسائی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۰۳)نے کہا:
    أخبرنا أحمد بن عثمان بن حكيم الأودي، قال:حدثنا خالد بن مخلد، قال:حدثنا على بن صالح، عن ميسرة بن حبيب، عن المنهال بن عمرو، عن سعيد بن جبير، قال:’’كنت مع ابن عباس، بعرفات، فقال:ما لي لا أسمع الناس يلبون؟ قلت:يخافون من معاوية، فخرج ابن عباس، من فسطاطه، فقال: لبيك اللهم لبيك، لبيك فإنهم قد تركوا السنة من بغض علي‘‘
    ’’سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ عرفات میں تھا تو وہ کہنے لگے:کیا بات ہے، میں لوگوں کو تلبیہ پکارتے ہوئے نہیں سنتا۔ میں نے کہا:لوگ معاویہ رضی اللہ عنہ سے ڈر رہے ہیں، (انہوں نے لبیک کہنے سے منع کر رکھا ہے)تو ابن عباس رضی اللہ عنہما (یہ سن کر)اپنے خیمے سے باہر نکلے، اور کہا:’’لبیک اللہم لبیک لبیک ‘‘(افسوس کی بات ہے)علی رضی اللہ عنہ کی عداوت میں لوگوں نے سنت چھوڑ دی ہے‘‘[سنن النسائی :۵؍۲۵۳،رقم:۳۰۰۶]
    ہماری نظر میں یہ روایت ضعیف ہے۔
    اس کی سند میں ایک راوی خالد بن مخلد القطوانی ہے۔
    بعض محدثین نے اس کی توثیق کی ہے جبکہ بعض نے اس پر جرح کی ہے ۔چنانچہ:
    امام ابن سعد رحمہ اللہ (المتوفی:۲۳۰)نے کہا:
    ’’کان منکر الحدیث فی التشیع مفرطا وکتبوا عنہ ضرورۃ‘‘[الطبقات الکبری ط دار صادر: ۶؍ ۴۰۶]
    امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفی:۲۴۱)نے کہا:
    ’’لہ أحادیث مناکیر‘‘[العلل ومعرفۃ الرجال لأحمد، ت وصی:۲؍۱۷]
    امام جوزجانی رحمہ اللہ (المتوفی:۲۵۹)نے کہا:
    ’’خالد بن مخلد:کان شتاماً معلناً بسوء مذہبہ‘‘[أحوال الرجال للجوزجانی، ت البَستوی:ص:۱۳۱]
    امام أبوداؤد رحمہ اللہ (المتوفی:۲۷۵)نے کہا:
    ’’صدوق، ولکنہ یتشیع‘‘[سؤالات أبی عبید الآجری أبا داود، ت الأزہری:ص:۸۰]
    ان اقوال کی بنیاد پربعض اہل علم نے اس راوی کوضعیف قراردیا ہے ۔چنانچہ :
    تحریر التقریب کے مؤلفین (دکتور بشار عواد اور شعیب ارنؤوط)اس راوی کے بارے میں اپنی تحقیق پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
    ’’ضعیف یعتبر بہ ‘‘[تقریب التہذیب لابن حجر:رقم:۱۶۷۷]
    اس پر نکارت کی جرح ہونے کے ساتھ ساتھ اس پرشیعیت کی بھی جرح ہے جیساکہ اس کے شاگرد امام ابن سعد رحمہ اللہ نے گواہی دی ہے۔نیز دیگراہل علم نے بھی اس کی تائید کی ہے۔
    اورزیر نظر روایت میں اس کی شیعیت بہت نمایاں ہے اسی لئے تو اہل تشیع اسے مزے لے لے کربیان کرتے ہیں۔
    اوربعض اہل علم کی تحقیق یہ ہے کہ یہ راوی جب اہل مدینہ سے روایت کرے گا تو اس کی روایت مقبول ہوگی مگر جب وہ اہل مدینہ کے علاوہ دیگرلوگوں سے روایت کرے تو اس کی روایت غیرمقبول ہوگی چنانچہ:
    امام ابن رجب رحمہ اللہ (المتوفی:۷۹۵)نے کہا:
    ’’ذكر الغلابي فى تاريخه۔قال: القطواني يؤخذ عنه مشيخة المدينة، وابن بلال فقط يريد سليمان بن بلال۔ومعني هذا أنه لا يؤخذ عنه إلا حديثه عن أهل المدينة، وسليمان بن بلال منهم، لكنه أفرده بالذكر‘‘
    [شرح علل الترمذی لابن رجب، ت ہمام:۲؍۷۷۶]
    اوریہ زیرنظر روایت میں اس نے یہ روایت اہل مدینہ سے نہیں بیان کی ہے بلکہ اہل کوفہ سے بیان کی ہے اس لئے یہ روایت ضعیف ہے۔
    واضح رہے کہ یہ بخاری ومسلم کا راوی ہے اوربخاری ومسلم کے راوی عام طور سے ثقہ ہوتے ہیں لیکن بعض ضعیف بھی ہوتے اوربخاری ومسلم کی علاوہ دیگرکتب میں ان کی روایات ضعیف قراردی جاتی ہیں ۔
    مثلاً بخاری ومسلم کا ایک راوی الفضیل بن سلیمان النمیری ہے۔
    بخاری میں اس راوی کی بیسیوں احادیث ہیں ۔اور مسلم میں بھی کئی احادیث ہیںلیکن یہ ضعیف راوی ہے ۔
    اسی راوی نے ایک حدیث بیان کی ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھاتے تھے یعنی ہاتھ اٹھاکردعاکرتے تھے۔
    امام طبرانی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۶۰)نے کہا:
    حدثنا سليمان بن الحسن العطار، قال:حدثنا أبو كامل الجحدري، قال:حدثنا الفضيل بن سليمان، قال:حدثنا محمد بن أبي يحيي، قال:’’رأيت عبد اللّٰه بن الزبير ور أى رجلا رافعا يديه بدعوات قبل أن يفرغ من صلاته، فلما فرغ منها، قال:إن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم لم يكن يرفع يديه حتي يفرغ من صلاته‘‘
    [المعجم الکبیر للطبرانی :۱۳؍۱۲۹]
    لیکن اہل علم نے اس کی حدیث کو الفضیل بن سلیمان النمیری کی وجہ سے ضعیف کہا ہے حالانکہ یہ بخاری ومسلم کاراوی ہے۔
    زبیرعلی زئی صاحب بخاری ومسلم کے اس راوی کو ضعیف قراردیتے ہوئے لکھتے ہیں:
    اس کا راوی الفضیل بن سلیمان النمیری جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف راوی ہے ، صحیحین میں اس کی تمام روایات شواہد ومتابعات کی وجہ سے صحیح ہیں۔[فتاویٰ علمیۃ:ج :۱،ص:۴۶۴،ایضاً:۴۶۸]
    علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس راوی کو ضعیف کہا ہے۔دیکھئے:[سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ:۶؍۵۶،رقم:۲۵۴۴]
    اس طرح کی اور بھی کئی مثالیں ہیں۔
    اس لئے ضروری نہیں ہے کہ کوئی راوی بخاری مسلم کا ہو تو لازمی طورپرثقہ ہو۔بلکہ بخاری ومسلم کے رجال میں بعض ضعیف رواۃ بھی ہیں اور امام بخاری ومسلم متابعات وشواہداورجانچ پڑتال کی بنیاد پرایسے رواۃ کی احادیث بھی ان کی سندوں میں امتیازی خوبیوں کے باعث لے لیتے ہیں۔
    خلاصہ کلام یہ کہ درج بالا روایت ضعیف ہے۔
    کیونکہ اس کی سند میں موجود خالدبن مخلد متکلم فیہ ہے۔
    اس کے اندر کٹرشیعیت ہے۔
    اس روایت کو اس نے اہل مدینہ کے بجائے اہل کوفہ سے نقل کیاہے۔
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings