Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • خطبۂ غدیر خُم اور اہل ِ بیت کے حقوق قسط نمبر :۱

    سید الاولین والآخرین حضرت محمد مصطفیٰ محمد مجتبیٰ ﷺ نے آخری حج جو ’’حجۃ الوداع ‘‘ کے نام سے بھی معروف ہے ، دس ہجری میں کیا ۔ اس سے قبل آخری رمضان المبارک ہی میں کچھ آثار نمایاں ہونے لگے تھے کہ شاید آئندہ آپ کی حیات طیبہ میں رمضان المبارک نہ آپائے کیوں کہ آخری رمضان المبارک میں خلاف ِ معمول جبریل علیہ السلام نے نبی کریم ﷺ سے دوبار قرآن مجید کا دَور کیا ۔
    قرب ِاجل کے اشارے:
    ٭بلکہ نبی ﷺ نے اپنی لخت ِ جگر فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
    ’’أَنَّ جِبْرِيلَ كَانَ يُعَارِضُهُ بِالقُرْآنِ كُلَّ سَنَةٍ مَرَّةً، وَإِنَّهُ قَدْ عَارَضَنِي بِهِ العَامَ مَرَّتَيْنِ،وَلاَ أَرَي الأَجَلَ إِلَّا قَدِ اقْتَرَبَ،فَاتَّقِي اللّٰهَ وَاصْبِرِيْ‘‘
    ’’بے شک جبریل علیہ السلام ہر سال مجھ سے قرآن مجید کا ایک بار دَور کرتے تھے ، اس سال انہوں نے دوبار دَور کیا ہے اور میں یہی سمجھتا ہوں کہ میری موت قریب ہے ،پس تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتی رہنا اور صبر کرنا ‘‘
    [صحیح البخاری: رقم:۶۲۸۵،۶۲۸۶، ۳۶۲۳،صحیح مسلم :۲۴۵۰]
    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’رسول اللہ ﷺ سے ہر سال ایک بار قرآن مجید کا دَور کیا جاتا تھا ، مگر جس سال آپ فوت ہوئے، اس میں دوبار دَور کیا ۔ نبی ﷺ ہر سال دس دن اعتکاف کرتے تھے، پھر جس سال آپ فوت ہوئے اس سال بیس دن اعتکاف فرمایا ‘‘
    [صحیح البخاری: ۴۹۹۸،۲۰۴۴]
    ٭حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : یوم النحر پر میں نے رسول اللہ ﷺ کو اونٹنی پر دیکھا ،آپ کنکریاں مار رہے تھے اور فرمارہے تھے :
    ’’لِتَأْخُذُوا لمَنَاسِكَكُمْ، فَإِنِّي لَا أَدْرِي لَعَلِّي لَا أَحُجُّ بَعْدَ حَجَّتِي هَذِهِ‘‘
    ’’ اپنے حج کا طریقہ سیکھ لو ۔ بے شک میں نہیں جانتا ، شاید میں اپنے اس حج کے بعد حج نہ کر سکوں ۔‘‘
    [صحیح مسلم ، رقم :۱۲۹۷]
    سنن ابن ماجہ وغیرہ کے الفاظ ہیں :
    ’’لِتَأْخُذْ أُمَّتِي نُسُكَهَا، فَإِنِّي لَا أَدْرِي لَعَلِّي لَا أَلْقَاهُمْ بَعْدَ عَامِي هَذَا‘‘
    ’’ میری امت کو چاہئے کہ اپنے حج کا طریقہ سیکھ لے ۔ مجھے معلوم نہیں ، شاید میں اس سال کے بعد ان سے (حج میں ) ملاقات ) کرسکوں ۔‘‘
    [سنن ابن ماجہ ، رقم : ۳۰۲۳،صحیح]
    ٭حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے منیٰ میں خطبہ ارشاد فرمایا :
    ’’وَوَدَّعَ النَّاسَ، فَقَالُوا: هٰذِهِ حَجَّةُ الْوَدَاعِ‘‘
    ’’اور لوگوںکو الوداع کہا ۔ اسی سے لوگ اس حج کو ’’حجۃ الوداع ‘‘ کہنے لگے ۔‘‘
    [صحیح بخاری ، رقم : ۱۷۴۲]
    لوگوں کو الوداع کہنے کا معنی یہ لیا گیا کہ نبی ﷺ نے خطبے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو الوداعی وصیتیں کیں اور ان پر اللہ تعالیٰ کو گواہ بنایا ۔اس سے انہوں نے ’’ حجۃ الوداع ‘‘ کا مفہوم سمجھا ۔
    [فتح الباری : ۸؍ ۱۰۷]
    ٭حجۃ الوداع ہی میں ۹ ذوالحجہ بر وز جمعہ یہ آیت نازل ہوئی :
    {الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا }
    ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اورتم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کر لیا ۔‘‘
    [المائدۃ :۳]
    حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک یہودی نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے کہا : آپ اپنی کتاب میں ایک آیت ایسی پڑھتے ہیں کہ اگر ہم یہودیوں کی کتاب میں یہ آیت نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس کے نزول کے دن کو عید بنالیتے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کون سی آیت ؟ اس نے کہا : {اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُم}یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہم اس دن اور جگہ کو جانتے ہیں جب یہ رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی تھی ۔ آپ ﷺ عرفہ میں تھے اور جمعہ کا دن تھا ۔ [صحیح بخاری رقم : ۴۵]
    اس آیت میں ’’ اکمال ِ دین ‘‘ اور ’’اتمامِ نعمت ‘‘کا ذکر ہے ۔’’ اتمام ‘‘ بِحسبِ اجزاء ہوتا ہے کہ اس کے تمام اجزاء مکمل ہیں ، اب کسی دوسری چیز کی ضرورت نہیں ۔ دین نام کی چیز اس کے بعد اور کوئی نہیں اور مسلمان اس کے علاوہ کسی اور دین کے محتاج نہیں ہیں ۔ اور ’’ اکمال ‘‘ بحسب ِ اوصاف ہوتا ہے کہ اس سے جو غرض وغایت مقصود تھی ، وہ مکمل ہوگئی ہے یعنی اس دنیا میں دین ِ اسلام بھیجنے کا جو مقصد تھا ، وہ آج پورا ہوگیا ہے ۔
    ٭اسی موقع پر ، جیسا کہ ایک ضعیف حدیث میں ہے کہ منیٰ میں ایامِ تشریق کے وسط میں سورۃ النصر نازل ہوئی ۔ [فتح الباری : ۸؍ ۱۳۰،۷۳۴، ابن کثیر : ۴؍۷۲۸ وغیرہ]
    علامہ قرطبی رحمہ اللہ وغیرہ نے تو ذکر کیا ہے کہ اس سورت کا نام ’’ سورۃ التودیع ‘‘ بھی ہے ۔ ’’التودیع ‘‘ کے معنی ہیں : کسی کو رخصت کرنا ۔ اس سورت میں چونکہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے قریب ہونے کا اشارہ ہے ، اس لیے اس کا نام ’’ سورۃ التودیع‘‘ بھی ہے ۔ یہ آخری مکمل سورت ہے جو آنحضرت ﷺ پر نازل ہوئی ۔ چنانچہ صحیح مسلم میںہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے عبیداللہ بن عبد اللہ بن عتبہ رحمہ اللہ سے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ قرآن مجید کی آخری مکمل سورت کون سی نازل ہوئی ؟ تو میں نے عرض کیا : ہاں {إِذَا جَاء َ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ}سب سے آخری سورت ہے ۔ انہوں نے فرمایا :’’تم نے سچ کہا ہے ۔‘‘ [صحیح مسلم ، رقم : ۳۰۲۴، سنن نسائی ، فتح الباری : ۸؍۷۳۴]
    حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی مجلس میں شیوخ بدر کے ساتھ ساتھ عموماً حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو بلا لیتے تھے جس پر شیوخ ِ بدر ناگواری محسوس کرتے کہ ہماری اولاد کو تو نہیں بلایا جاتا ، ابن عباس رضی اللہ عنہ کو بلا لیتے ہیں ! ایک روایت میں ہے کہ یہ اعتراض کرنے والے حضرت عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ تھے ۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ایک روز شیوخ ِ بدر کی موجودگی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بلایا اور شیوخِ بدر سے پوچھا کہ سورۃ النصر کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ چنانچہ بعض حضرات تو خاموش رہے اور بعض نے فرمایا کہ اس میں ہمارے لیے فتح ونصرت کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرنے اور استغفار کرنے کا حکم ہے ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا : تمہاری بھی یہی رائے ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا :نہیں ، بلکہ اس میں رسول اللہ ﷺ کی وفات کا اشارہ ہے اور آپ کو بتلایاگیا ہے کہ آپ کی اجل قریب ہے ، اس لیے اپنے رب کی حمد کہیں اور بخشش طلب کریں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں بھی یہی سمجھتا ہوں جوتم نے کہاہے ۔ [صحیح بخاری ، رقم : ۳۶۲۷،۴۲۹۴،۴۴۳۰، ۴۹۴۹،۶۹۷۰،نیز دیکھئے: فتح الباری : ۸؍ ۷۳۵]
    چنانچہ اسی حکم کی تعمیل میں ، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان فرمایا ہے کہ سجدے اور رکوع میں رسول اللہ ﷺ بکثرت یہ دعا پڑھنے لگے تھے : ’’سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي‘‘ ’’اے ہمارے اللہ ! اے ہمارے رب ! تو (ہر عیب سے ) پاک ہے ۔ ہم تیری تعریف اور پاکیزگی بیان کرتے ہیں ۔ اے اللہ !مجھے بخش دے ۔‘‘[صحیح بخاری ، رقم : ۷۹۴،۸۱۷]
    حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاہی سے ایک روایت میں یہ ہے کہ{إِذَا جَاء َ نَصْرُ اللّٰهِ} نازل ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے کوئی نماز نہیں پڑھی جس میں یہ نہ پڑھا ہو : ’’سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي‘[صحیح بخاری ، رقم : ۴۹۶۷]
    ۱۳؍ذوا لحجہ۱۰ھ: حج سے فارغ ہوئے تو بروز منگل ۱۳ ؍ذوالحجہ ۱۰؁ھ کو رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمراہ زوال کے بعد کنکریاں مار کر منیٰ سے کوچ فرمایا اور وادیِ ابطح (خیف بنی کنانہ ) میں فروکش ہوئے ۔ اسی کو ’’وادیِ محضب ‘‘ بھی کہتے ہیں ۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں بنو کنانہ نے قریشِ مکہ کے ساتھ مل کر بنو ہاشم اور بنو مطلب کے خلاف بائیکاٹ کا معاہدہ کیا تھا ۔ اس مقام پرآنحضرت ﷺ نے ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء کی نماز پڑھی ، پھر کچھ وقت آرام فرمایا اور اس کے بعد اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر طواف وداع کے لیے گئے ۔ [صحیح بخاری رقم : ۱۷۵۶ ]
    صبح کی نماز حرمِ پاک میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمراہ ادا کی ، پھر بیت اللہ کا طواف کیا ۔ طواف سے فارغ ہوکر آپ ﷺ مدینہ طیبہ کی جانب چل پڑے ۔ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ طواف کے بعد نبی ﷺ واپس وادیِ ابطح تشریف لے گئے ۔ مگر حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس کی انہوں نے کوئی دلیل ذکر نہیں کی ۔ [البدایہ : ۵؍ ۲۰۷]
    ۱۸؍ذوالحجہ ۱۰ھ: چنانچہ مکہ مکرمہ سے نکل کر ۱۸؍ذوالحجہ ۱۰؁ھ بروز اتوار رسول اللہ ﷺ ’’ غدیرِ خم‘‘ کے مقا م پر پہنچے یہ جگہ مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کے راستے پر واقع ہے جو جُحْفَہکے قریب ہے۔ [البدایہ ۵؍۲۰۸]
    غدیر خم جحفہ سے ۸کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ۔ یہاں آنحضرتﷺ نے عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں اہل بیت بالخصوص حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب بیان فرمائے ۔
    خطبے کا پس منظر ـ: اس خطبے کا پس منظر یہ تھا کہ ۱۰؁ھ میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قیادت میں تین سو گھڑ سواروں کا ایک لشکر جنوبی یمن میں قبیلہ مُذْحَجْ کی سر کوبی کے لیے روانہ کیا ۔ ابتدائی طور پر قبیلہ مذحج نے مقابلہ کیا،مگر بالآخر اللہ تعالیٰ نے لشکر اسلام کو فتح ونصرت سے نوازا۔ قبیلے کے رئوساء نے اسلام قبول کیا اور اپنے صدقات وزکاۃ بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کر دئیے ۔ انہوں نے سارے مال کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ۔ قرعہ اندازی سے رسول اللہ ﷺ کا خصوصی ’’ خمس ‘‘ علیحدہ کر دیا اور باقی مال مجاہدین میں تقسیم کر دیا ۔ ادھر آنحضرت ﷺ حج کے لیے مکہ مکرمہ آرہے تھے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ مقامِ فُتق پر پہنچے تو انہوں نے لشکر اور مالِ غنیمت کی ذمہ داری حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ کے سپردکی اور خود پیش قدمی کر کے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوگئے ، تاکہ جلدی سے آنحضرت ﷺ سے جاملیں ۔
    حضرت علی رضی اللہ عنہ صدقے کے اونٹوں پر سواری سے روکتے تھے ۔ مالِ غنیمت میں یمنی کپڑوں کے ڈھیر تھے ۔ مجاہدین نے نئے امیر حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے گزارش کی کہ انہیں دو دو چادریں عطا کردیں ، انہوں نے ساتھیوں کی فرمائش پوری کردی ۔
    جب یہ لشکر مقام ’’سدرہ ‘‘ سے مکہ مکرمہ میں داخل ہونے لگا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ان سے آملے ، تاکہ لشکر کے پڑائو کا بندوبست کر سکیں ۔ جب انہوں نے سب لوگوں کو دو دو نئی چادروں میں ملبوس دیکھا تو پہچان گئے کہ یہ تو ’’خمس ‘‘ کی چادریں ہیں ، وہ حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے ناراض ہوئے کہ میں نے تو ان کے مطالبے پر چادریں نہیں دی تھیں ، مگر آپ نے دے دیں ! چنانچہ مجاہدین سے وہ چادریں واپس لے لی گئیں ۔مجاہدین نے اس کا شکوہ آنحضرت ﷺ سے کیا ۔
    اُدھر حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ بھی مالِ غنیمت کے ایک معاملے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ناراض ہوگئے، حتیٰ کہ وہ خود فرماتے ہیں کہ میں علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنے لگا تھا ۔ [بخاری مع الفتح : ۸؍ ۶۶]
    مسند امام احمد رحمہ اللہ میں ہے کہ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں علی رضی اللہ عنہ سے اس قدر بغض رکھتا تھا کہ اس قدر بغض میں کسی سے نہیں رکھتا تھا اور میں قریش کے نوجوان سے محبت کرتا تھا اور میں اس سے محبت علی رضی اللہ عنہ سے بغض کی وجہ سے کرتا تھا ۔ آنحضرت ﷺ کو اس کا علم ہوا تو دریافت فرمایا :’’ کیا تو علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتا ہے ؟ ‘‘ میں نے کہا : جی ہاں ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’اس سے بغض نہ رکھو اور تم اس سے محبت کرو، تم اس سے زیادہ محبت کرو ۔ ‘‘ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺکے اس فرمان کے بعد سب سے زیادہ میری محبت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوگئی ۔[البدایہ : ۵؍ ۱۰۴]
    یہ تھے وہ اسباب جن کی بنا پر لشکر ِ اسلام کے جاں نثاروں کے دلوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کچھ شکوے پیدا ہوگئے تھے کہ انہوں نے ہمارے ساتھ ظلم و زیادتی کی ہے اور بخل کا مظاہرہ کیا ہے ۔ حالانکہ امر واقع یہی تھا، کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا موقف درست تھا ، چنانچہ ۱۸ ؍ذوالحجہ کو غدیر ِخُم کے مقام پر عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا جسے متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے روایت کیا ہے ، چنانچہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی، ہمیں وعظ و نصیحت سے نوازا ۔ پھر فرمایا :
    ’’أَلَا أَيُّهَا النَّاسُ، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَ، وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ، أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللّٰهِ فِيهِ الْهُدَي وَالنُّورُ، فَخُذُوا بِكِتَابِ اللّٰهِ وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ، فَحَثَّ عَلٰي كِتَابِ اللّٰهِ وَرَغَّبَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ: وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللّٰهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللّٰهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللّٰهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي۔‘‘
    ’’اے لوگو! میں بے شک انسان ہوں ۔ قریب ہے کہ میرے رب کا قاصد میرے پاس آئے اور میں اس کی دعوت قبول کرلوں ۔ میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں ! ان دو میں سے پہلی اللہ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نورہے ، پس تم اللہ کی کتاب کو اختیار کرو اور اسے مضبوطی سے تھام لو ۔ ‘‘نبی ﷺ نے کتاب اللہ پر عمل کرنے کے لیے لوگوں کو اُ بھارا اور انہیں رغبت دلائی ، پھر فرمایا : ’’ ( دوسری چیز ) میرے اہل ِبیت ہیں ۔ میںتمہیں اپنے اہل ِبیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں ، میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں (یعنی اللہ سے ڈرتے رہنا اور میرے اہل ِبیت کا خیال رکھنا )۔‘‘
    [صحیح مسلم ، رقم : ۲۴۰۸؍ ۶۲۲۵]
    حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ بھی منقول ہیں :
    ’’كَأَنِّي قَدْ دُعِيتُ فَأَجَبْتُ، إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ، أَحَدُهُمَا أَكْبَرُ مِنَ الْآخِرِ:كِتَابَ اللّٰهِ، وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي، فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا؟ فَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتّٰي يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ’’ثُمَّ قَالَ:إِنَّ اللّٰهَ مَوْلَايَ، وَأَنَا وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ فَقَالَ:مَنْ كُنْتُ وَلِيُّهُ فَهَذَا وَلِيُّهُ، اللهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ ‘‘
    ’’مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ مجھے بلایا جارہا ہے تو میں نے ہاں کردی ہے ۔ میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑ رہا ہوں جن میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے ،کتاب اللہ اور میری عزت میرے اہل ِبیت کا خیال رکھنا ۔ دیکھنا کہ تم میرے بعد ان سے کیا سلوک کرتے ہو ۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گی ، تا آنکہ یہ دونوں میرے پاس حوض پر آجائیں گے ۔‘‘ پھر فرمایا :’’ میرا اللہ مولیٰ ہے اور میں ہر مومن کا دوست ہوں ۔‘‘ پھر آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کاہاتھ پکڑا اور فرمایا : ’’ میں جس کا دوست ہوں ، یہ اسکا دوست ہے ۔ اے اللہ ! جواس سے دوستی رکھے ، اس سے تو بھی دوستی رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے تو تُو بھی اس سے دشمنی رکھ ۔‘‘
    [السنن الکبریٰ للنسائی ، رقم : ۸۰۹۲، المستدرک للحاکم : ۳؍ ۱۰۹، مسند أحمد : ۱؍ ۱۱۸، سلسلۃ أحادیث الصحیحۃ ، رقم : ۱۷۵۰]
    حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔ ( البدایہ : ۵؍ ۲۰۹ ، مزید تفصیل کے لیے دیکھئے : سلسلہ صحیحہ ، رقم : ۱۷۵۰ )
    گویا حالات کے پس منظر میں آنحضرت ﷺ نے اہل ِبیت کے حقوق کی پاسداری اور ان سے موّدت وأخوت قائم رکھنے کی تاکید فرمائی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دوستی اور أخوت رکھنے کا حکم فرمایا ۔
    یاد رہے کہ عرفات میں جو طویل خطبہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا ، اس میں بھی آپ ﷺ نے کتاب اللہ کے بارے میں فرمایا :
    ’’ وَقَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ، كِتَابُ اللّٰهِ، ‘‘
    ’’میں تم میںایک چیز چھوڑ کر جارہا ہوں ، اگر تم نے اسے مضبوطی سے تھامے رکھا تو تم کبھی گمراہ نہیں ہو گے ، وہ اللہ کی کتاب ہے ‘‘
    [صحیح مسلم ، رقم : ۱۲۱۸]
    اس خطبے میں اور بھی نصیحتیں فرمائیں جن کا ذکر احادیث اور تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے ، مگر خطبۂ غدیرِخُم میں کتاب اللہ کے ساتھ تمسک کے علاوہ اہلِ بیت کا پاس ولحاظ رکھنے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دوستی رکھنے کا جو حکم فرمایا تو اس کا سبب بجز اس کے اور کوئی نہیں جو ہم نے ذکر کیا ہے اور یہی سبب حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ ( ۵؍ ۲۰۸) میں ذکر فرمایا ہے ، بلکہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شکایت کی تو آنحضرت ﷺ نے خطبے میں فرمایا :
    ’’أَيُّهَا النَّاسُ، لَا تَشكوا عليّاً‘‘ ۔‘’’لوگو ! علی کا شکوہ نہ کرو‘‘[ابن ھشام : ۲؍ ۳۵۱]
    نبی ﷺ کی مختلف مواقع پر نصیحتیں : یہی ایک موقع نہیں جہاں آنحضرت ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف نفرت ومخالفت کے دفاع میں خطبہ ارشاد فرمایا ہو ، بلکہ آپ ﷺ کی سیرت ِ طیبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب کبھی آپ نے محسوس فرمایا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ما بین یاکسی ایک صحابی کے بارے میں نفرت کے جراثیم جڑ پکڑ رہے ہیں تو اسی موقع پر آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل بیان فرمائے اور موقع کی مناسبت سے اگر ضرورت پڑی تو خطبہ ارشاد فرمایا ۔
    (۱) ۔۔۔چنانچہ ایک موقع پر کسی یہودی کی شرارت سے صحابہ رضی اللہ عنہم کے معروف قبائل اوس اور خزرج میں پرانی دشمنی بھڑک اُٹھی تو آنحضرت ﷺ نے اس موقع پر ارشاد فرمایا :
    ’’ اللّٰهَ اللّٰهَ، أَبِدَعْوَي الْجَاهِلِيَّةِ وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ بَعْدَ أَنْ هَدَاكُمْ اللّٰهُ لِلْإِسْلَامِ، وَأَكْرَمَكُمْ بِهِ، وَقَطَعَ بِهِ عَنْكُمْ أَمْرَ الْجَاهِلِيَّةِ، وَاسْتَنْقَذَكُمْ بِهِ مِنْ الْكُفْرِ، وَأَلَّفَ بِهِ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ،‘‘
    ’’اللہ اللہ ! میرے ہوتے ہوئے جاہلیت کی پکار ، وہ بھی اس کے بعد کہ اللہ نے تمہیں اسلام کی ہدایت عطافرمائی ، اس کے ذریعے تمہیں عزت بخشی ، اس کے ذریعے تم سے جاہلیت کا خاتمہ فرمادیا،تمہیں کفر سے نجات دی اور تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی !‘‘
    [ابن ھشام : ۱؍ ۵۵۵،ط : مطبعۃ مصطفی البابی]
    (۲) ۔۔۔اسی طرح جب حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ سے فتح ِمکہ کے موقع پرسخت کوتاہی ہوئی کہ انہوں نے اہلِ مکہ کو اس بارے میں خط لکھا ، مگر وہ خط راستے ہی میں پکڑا گیا ۔ یہ نہایت سنگین معاملہ تھا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ مجھے اجازت دیجئے میں اس منافق کی گردن اُڑا دوں ۔ اس نے اللہ ، اس کے رسول ﷺ اور مومنوں سے خیا نت کی ہے ۔ مگر آنحضرت ﷺ نے فرمایا : کیا یہ اہل ِبدر میں سے نہیں ہے ؟ اور اللہ تعالیٰ نے اہل ِبدر سے فرمایا ہے کہ جو چاہو عمل کرو ، میں نے تمہارے لیے جنت واجب کردی ہے ۔[صحیح بخاری ، رقم : ۳۰۰۷،۳۹۸۳]
    (۳) حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ما بین شکر رنجی پیدا ہوگئی ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے معذرت کی ، مگر انہوں نے مجھے معاف نہ کیا ۔ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اے ابوبکر ! اللہ تمہیں معاف فرمائے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب وہاں پہنچے تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا : اللہ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث فرمایا تو تم نے میری تکذیب کی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے میری تصدیق کی اور اپنے مال اور اپنی جان کے ساتھ میری مدد کی :
    ’’فَهَلْ أَنْتُمْ تَارِكُوا لِي صَاحِبِي مَرَّتَيْنِ‘‘
    ’’ کیا تم میری خاطر میرے ساتھی کو چھوڑ سکتے ہو ؟ یہ بات آپ ﷺ نے دوبارہ ارشاد فرمائی ۔ ‘‘
    [صحیح بخاری ، رقم : ، ۳۶۶۱، ۴۶۴۰](اس حوالے سے مزید دیکھئے سیرت انسائیکلو پیڈیا :۱۰؍ ۲۹۷،۲۹۸)
    بالکل اسی طرح یمن سے واپسی پر جب لشکرِ اسلام نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شکایت کی اور ناراضگی کا اظہار کیا تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے شکوک کا ازالہ فرمایا ، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اور اہلِ بیت سے محبت ومودّت کی تاکید فرمائی ۔
    خطبۂ غدیر خُم سے غلط استدلال : اس خطبے کو بنیاد بناکر رافضی لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت ِبلا فصل پر استدلال کرتے ہیں اور ۱۸؍ذو الحجہ کو عید غدیرِ خُم مناتے ہیں ۔ حالانکہ اس خطبے میں نہ خلافت ِبلا فصل کا کو ئی ذکر ہے اور نہ اس بنیاد پر حضرت علی اور دیگر اہل ِبیت ر ضی اللہ عنہ میں سے کسی نے اس دن کو بطور عید منایا ہے !علاوہ ازیں ۱۸ ؍ذو الحجہ کی فضیلت میں انہوں نے یہ روایت بھی بنا ڈالی کہ جو اس تاریخ کو روزہ رکھے گا ، اس نے گویا ساٹھ ماہ کے روزے رکھے ۔ حالانکہ یہ باطل اور من گھڑت روایت ہے ۔ [البدایہ : ۵؍ ۲۱۴]
    رافضی حضرات اس بارے میں اس انتہا پر ہیں کہ ان کے مطابق نہ صرف اس روز آیت {اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ ۔۔۔۔الخ } نازل ہوئی ، بلکه {يَاأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ} بھی اسی روز نازل ہوئی ۔
    ان کا یہ دعویٰ اپنے مفروضات پر ہے ، اس پر کوئی صحیح یا قابلِ اعتبار روایت کتب ِاحادیث وتفاسیر میں سے کسی قابلِ اعتبار کتاب میں نہیں ۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے دونوں آیات کے حوالے سے ان روایات کو ’’ سلسلۃ أحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ ‘‘میں ذکر کیا ہے۔ ( ملاحظہ ہو رقم : ۴۹۲۲،۴۹۲۳،۴۹۳۲)اور انہیں موضوع ومن گھڑت قرار دیا ہے ۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے منہاج السنہ ( جلد نمبر ۴) میں بھی اس پر مفصل نقد کیا ہے ۔ مشہور مفسر قرآن مولانا حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ نے بھی ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ میں {یَاأَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَیْکََ}سے روافض کے استدلال کا تار وپود بکھیر کر رکھ دیا ہے ۔( شائقین ملاحظہ فرمائیں ہفت روزہ الاعتصام ، جلد : ۷۱، شمارہ : ۲۵: ۲۶ ) ،اس لیے ہم اس بارے میں مزید بحث مناسب نہیں سمجھتے ۔
    جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings