-
تاریخ کے جھروکوں سے دینی اداروں، مدارس اور جامعات میں مالی عطیات کا تصرف:
۱۹۹۳ء کی بات ہے، جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں میں قیام کے دوران انتظامیہ نے کسی مصلحت کے تحت تعلیمی نظام الاوقات کو تبدیل کرکے ماہ رمضان المبارک میں تعطیل کی بجائے تعلیم جاری رکھنے کا فیصلہ کردیا تھا۔
اب میرے (شیخ الجامعہ کے)سامنے تقریباً ڈیڑھ ہزار بچے اور بچیوں کی سحری و افطاری کے انتظامات کا مسئلہ تھا۔ مدیر الجامعہ شیخ مختار احمد ندوی رحمہ اللہ کا مجھے فون آتا ہے اور آپ فرماتے ہیں کہ میں نے کویت میں کسی محسن سے بات کی ہے چنانچہ انہوں نے طلبہ و طالبات کی سحری و افطار کے لئے اتنی رقم کا انتظام کردیا ہے۔ میں نے جامعہ کے خازن جناب رشید احمد فیضی صاحب حفظہ اللہ سے میٹنگ اور مشورہ کے بعد محترم مدیر الجامعہ علیہ الرحمۃ کی بتائی ہوئی رقم کو تیس دنوں میں تقسیم کردیا اور اسی حساب سے روزانہ طلبہ و طالبات کے لئے سحری و افطاری کے انتظام کی پلاننگ کردی۔ اس مد میں مختص رقم اتنی تھی کہ جس سے سحری اور افطاری کا اچھا انتظام ہونے لگ گیا۔ طلبہ و طالبات بڑے خوش تھے۔ اس کی تفصیل بجائے میں خود لکھنے کے جامعہ کے ایک سینئر مخلص استاداور عصری علوم کے انچارج محترم جناب ڈاکٹر افضل علی صاحب جونپوری نے جو تأثراتی مضمون’’ بعنوان فردوس بر روئے زمیں ‘‘لکھا تھا اس میں سے متعلقہ پیراگراف کو یہاں نقل کردیتا ہوں، اس کو پڑھ کر آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ جامعہ کے طلبہ و طالبات کی سحری و افطاری کے انتظام کی نوعیت کیا کچھ تھی۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
’’گذشتہ سال رمضان میں کچھ مصالح کی بناء پر طلبہ و طالبات کو روک لیا گیا تھا۔ بچے تو بہرحال رک گئے، لیکن اب ہزار ڈیڑھ ہزار لوگوں کے سحر و افطار کا مسئلہ تھا، لیکن شیخ صاحب صبر و استقلال کا دامن کبھی نہیں چھوڑتے، اتنا معقول اور بھرپور انتظام کیا کہ لوگوں کو برسوں یاد رہے گا۔ افطاری کے روایتی لوازمات کے علاوہ کافی مقدار میں کئی کئی پھل بھی میزوں پر سجائے جاتے تھے۔ حتیٰ کہ بازار میں دستیاب ہونے والے سبھی پھل جامعہ میں آئے اور کثیر مقدار میں آئے۔ یہی حال سحری کا تھا۔ گرم گرم نانیں آرہی ہیں دیگوں میں میوں کی ترّی تیار ہورہی ہے، بچے خوش خوش سحری کا لطف لے رہے ہیں۔ اجتماعی افطار ہے، اجتماعی سحری ہے، تراویح کی نماز ہورہی ہے۔ طلبہ کے ساتھ ساتھ طالبات بھی نماز میں شریک ہیں، پردہ کا پورا اہتمام ہے۔ یہ منظر شاید ہی دیکھنے کو مل سکے۔ اس ہنگامہ گرم کن میں شیخ صاحب کی حس خوابیدہ نہیں تھی۔ مدرسہ عائشہ صدیقہ میں میری پوتی پڑھتی ہے۔ میں اسے پڑھانے جایا کرتا تھا، ایک دن کیا دیکھتا ہوں کہ کھجوروں اور پھلوں سے لدی ہوئی گاڑی مدرسہ کے پھاٹک میں داخل ہورہی ہے اور شیخ صاحب گاڑی کے ساتھ چلے جارہے ہیں۔ میں نے دریافت کیا کہ شیخ صاحب بے وقت کیسے آگئے؟ بچی نے بتایا کہ شیخ صاحب روز آتے ہیں اور اس لیے آتے ہیں کہ چھوٹی چھوٹی بچیاں روزہ رکھتی ہیں، کسی بچی کو کوئی چیز کم نہ مل سکے۔ میں حیرت میں ڈوب گیا۔ آنکھیں نم ہوگئیں اور معاً غالب کا مصرعہ یاد آگیا: ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے۔‘‘
سحری و افطاری کے انتظامات سے شیخ مختار احمد ندوی رحمہ اللہ اور محترم رشید احمد فیضی حفظہ اللہ بہت خوش اور مطمئن تھے، لیکن نہ جانے کیا سبب تھا ،انتظامیہ کے ایک دو ارکان کو اعتراض ہوا کہ مدرسہ کے بچوں اور بچیوں کو اتنا عمدہ کھانا اور اتنی اچھی سحری و افطاری کا انتظام ! اس کی کیا ضرورت ہے ؟ بچوں کو افطاری میں اتنے فروٹ پھر سحری میں میوں کی ترّی پلائی جارہی ہے، اس کی آخر ضرورت کیا ہے؟ ۔۔۔۔ رقم بچاکر اس کو کسی دوسرے کام میں لگایا جاسکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کیا کیا جائے ان بعض معترض انتظامیہ کا سامنا ایک اصول پرست پرنسپل سے تھا، جو طلبہ و طالبات بلکہ منصورہ میں بسنے والے کل تدریسی وغیر تدریسی اسٹاف کو اپنے کنبہ و قبیلہ کا حصہ تصور کرتے ہوئے ان کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرتا تھا۔ ان معترض ذمہ داروں کو میرا جواب یہ تھا کہ معطی اور ڈونر نے یہ رقم طلبہ و طالبات کی سحری و افطاری کی مد میں دی ہوئی ہے یہ طلبہ و طالبات کی گویا ملکیت ہے، اس رقم پر مکمل انہی کا حق ہے۔ ہم اس میں تصرف کے مجاز کیسے ہوسکتے ہیں، ہم کسی اور مد میں اس رقم کو خرچ نہیں کرسکتے الا یہ کہ ڈونر اور معطی اس کی اجازت دے دیں؟ پھر معترضین سے میری آرگیومنٹ یہ بھی ہوتی تھی کہ کیا یہ بچے ہمارے اپنے ہوتے تب بھی ہمیں ایسا ہی اعتراض ہوتا ؟ کیا ہمارے گھروں میں اس سے اچھی سحری و افطاری کا انتظام نہیں ہوتا ہے؟ کیا ان بچوں اور بچیوں کو رمضان میں اپنا گھر اس کی سہولیات اور رمضان کے سحری و افطاری کے کھانے یاد نہیں آئیں گے؟ ان معترضین کے پاس میرے اٹھائے گئے سوالات کا کوئی جواب نہیں تھا! لیکن ان کے پاس کہنے کو یہ ضرور ہوتا کہ آپ ہمارے تنخواہ دار ملازم ہیں، آپ کو ہمارا حکم ماننا ہوگا۔۔۔۔۔!اس پر میرا جواب ہوتا کہ میں کسی ٹرسٹی یا منتظم کا ذاتی ملازم نہیں ہوں۔ میں جامعہ کا خادم ہوں۔ جامعہ کے دستور کا پابند ہوں۔ اگر قرآن وحدیث یا جامعہ کے دستور کی کسی شق کے خلاف میرا کوئی عمل یا فیصلہ ہو تو پیش کیا جائے؟ اس کا جواب نہیں ملتا ! اقامتی درسگاہوں میں طلبہ و طالبات کو ان کے والدین کی سی محبت دینا، ان کی کما حقہ دیکھ بھال کرنا، ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، ان کی عزت نفس کا خیال رکھنا، ان کی صحت ونشونما پر دھیان دینا، ان کی قدر کرنا، ان کی ضروریات اور دیگر لازمی امور کا خیال کرنا اور انہیں خوشگوار ماحول فراہم کرنا انتظامیہ اور پرنسپل کے اولین فرائض میں آتا ہے۔
بہت کم دینی ادارے ایسے ہوں گے جن کو انتظامیہ اپنے ذاتی خرچ سے چلاتے ہوں ؟ ورنہ ان کی اکثریت ڈونیشن اور عوامی عطیات سے چلتے ہیں۔ دوسروں کے اموال پر انتظامیہ کا تصرف اور رویہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ گویا یہ حضرات اپنے ذاتی پیسوں سے ادارہ چلا رہے ہیں۔ اور ہر سیاہ و سفید کے مالک ہیں!
اس تحریر کا اصل مقصود یہی ہے کہ دینی اداروں میں دیئے جانے والے عطیات اسی مد میں خرچ کرنے چاہئیں جس مد کے لئے وہ حاصل کئے گئے ہوں ورنہ یہ خیانت ہوگی۔ جس کے لئے عند اللہ جوابدہ ہونا ہوگا، اور پھر یہ ادارے انتظامیہ کے لیے باعث ثواب کی بجائے موجب عذاب بن جائیں گے۔ العیاذ باللہ !