Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • کیا قرآن میں زیر وزبر بعد میں داخل کیا گیا ہے؟

    اہل بدعت کی طرف سے بارباریہ بات اٹھائی جاتی ہے کہ قرآن میں پہلے زبرزیرنہیں تھا بعدمیں داخل کیا گیاہے، اور چونکہ یہ اچھی چیز ہے لہٰذااس سے ثابت ہوا کہ دین میں بدعت حسنہ کی گنجائش ہے۔
    لیکن یہ سوچ غلط ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی خوفناک بھی ہے کہ قرآن میں پہلے زیرزبرنہیں تھا، سچ یہ ہے کہ قرآن میں زبرزیر تب سے ہے جب سے قرآن ہے، البتہ اسے لکھا بعدمیں گیا ہے،اوربعدمیں لکھنے کے لیے دلیل موجود ہے،لکھنے کی دلیل ہم آگے پیش کریں گے پہلے اس بات کے دلائل سامنے رکھ دیں کہ قرآن مجید میں زیرزبرنیانہیں ہے،ملاحظہ ہو:
    پہلی دلیل:
    قران مجید ہم تک تلاوت ہوکرپہنچاہے،سب سے پہلے اللہ نے اس کی تلاوت کی ،اللہ کا ارشادہے:
    { تِلْكَ آيَاتُ اللّٰهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ }
    ’’یہ اللہ کی آیتیں ہیں جنہیں ہم تم پرحق کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں (یعنی پڑھتے ہیں)‘‘
    [الجاثیۃ:۶]
    اللہ کے بعد جبرئیل علیہ السلام نے اس قرآن کو اللہ کے نبیﷺ تک پہنچایا:
    {وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ۔عَلٰي قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ}
    ’’اور بلاشک و شبہ یہ (قرآن)رب العالمین کا نازل فرمایا ہوا ہے۔اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے ،آپ کے دل پر اترا ہے کہ آپ آگاہ کر دینے والوں میں سے ہوجائیں ،صاف عربی زبان میں ہے‘‘
    [الشعراء: ۱۹۲ ۔ ۱۹۵]
    اس کے بعدجبرئیل علیہ السلام نے بھی قرآن مجید کو پڑھ کراورتلاوت کرکے رسول اللہ ﷺ کو سکھا یا ہے، بخاری میں ہے:
    ’’وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ القُرْآنَ‘‘
    ’’یعنی جبرئیل علیہ السلام رمضان کی ہررات رسول اکرم ﷺ سے ملتے اورآپ کوقرآن پڑھاتے تھے‘‘
    [صحیح البخاری:۱؍۸،رقم:۶]
    اوراللہ کے نبی ﷺنے قرآن پڑھ کر ہی صحابہ کرام کوبتلایا ہے۔
    اب سوال یہ ہے کہ کیا بغیرزبرزیرکے قرآن کی تلاوت یا اسے پڑھنا ممکن ہے ؟ہرگزنہیں !
    مثال کے طورپر آپ کسی بھی شخص سے کہیں کہ سورہ فاتحہ کی آیت ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ‘‘ پڑھے، پھراس سے سوال کریں کہ: تم نے ’’الحمد‘‘کے’’ح‘‘ پرکیا پڑھا ؟
    وہ جواب دے گا زبرپڑھا ، اب سوال کیجیے کہ رسول اکرم ﷺ نے جب اسی ’’الحمد‘‘کو پڑھا تھا توکیا پڑھا تھا؟
    یقینا آپ ﷺنے زبرہی پڑھا تھا، اوراسی طرح جبرئیل علیہ السلام نے تلاوت کی اوراس سے پہلے اللہ نے تلاوت کی۔
    دوسری دلیل:
    زیرزبرلکھنے سے پہلے قرآن کا جوتلفظ تھا وہی تلفظ اب بھی ہے، اس پرپوری امت کا اجماع ہے کسی کا اختلاف نہیں ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ زیرزبرپہلے ہی سے تھا،البتہ لکھا ہوا نہیں تھابعد میں لکھا گیا ہے۔
    تیسری دلیل:
    زبرزیرلکھنے سے پہلے قرآنی آیات کے جومعانی تھے وہی معانی اب بھی ہیں ، اگرزبرزیرنیا ہوتاتومعانی بدل جاتے،یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن میں زبرزیرپہلے ہی سے موجودتھا البتہ اسے لکھا بعدمیں گیاہے۔
    چوتھی دلیل:
    زبرزیرلکھنے سے پہلے ہرحرف پردس نیکی کا ثواب تھا اورزبرزیرلکھنے کے بعد بھی ثواب اتنا ہی ہے،اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے،یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ زبرزیرنیانہیں ہے پہلے ہی سے ہے البتہ اس کی کتابت بعدمیں ہوئی ہے۔
    پانچویں دلیل:
    قرآن نے پوری دنیا کوچیلنج کیا ہے کہ کوئی بھی قرآن جیسی کوئی سورہ نہیں بنا سکتا،اگرپوری دنیا قرآن جیسی سورہ پیش کرنے سے عاجزہے،توخودمسلمانوں میں یہ طاقت کہاں سے آگئی کہ وہ قرآن میں قرآن ہی جیسی کوئی چیز داخل کریں اوروہ بھی ’’الحمد‘‘سے لے کر ’’الناس‘‘تک؟
    اس سے بھی ثابت ہواکہ زبرزیرکوبعدمیں داخل نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ قرآن میں پہلے ہی سے موجودتھا۔
    چھٹی دلیل:
    صحابۂ کرام وازواج مطہرات باقاعدہ زبرزیرسے استدلال کرتے تھے، ملاحظہ ہو:
    حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ:’’أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ:أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:أَرَأَيْتِ قَوْلَهُ:(حَتَّي إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِّبُوا) أَوْ كُذِبُوا؟ قَالَت: بَلْ كَذَّبَهُمْ قَوْمُهُمْ ، فَقُلْتُ: وَاللّٰهِ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا أَنَّ قَوْمَهُمْ كَذَّبُوهُمْ، وَمَا هُوَ بِالظَّنِّ، فَقَالَتْ: يَا عُرَيَّةُ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا بِذَلِكَ ، قُلْتُ:فَلَعَلَّهَا أَوْ كُذِبُوا، قَالَتْ:’’مَعَاذَ اللَّهِ، لَمْ تَكُنِ الرُّسُلُ تَظُنُّ ذَلِكَ بِرَبِّهَا، وَأَمَّا هَذِهِ الآيَةُ، قَالَتْ:هُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ، الَّذِينَ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَصَدَّقُوهُمْ، وَطَالَ عَلَيْهِمُ البَلَاء ُ، وَاسْتَأْخَرَ عَنْهُمُ النَّصْرُ، حَتَّي إِذَا اسْتَيْأَسَتْ مِمَّنْ كَذَّبَهُمْ مِنْ قَوْمِهِمْ، وَظَنُّوا أَنَّ أَتْبَاعَهُمْ كَذَّبُوهُمْ، جَائَ هُمْ نَصْرُ اللّٰهِ‘‘
    [صحیح البخاری:۴؍۱۵۰،رقم:۳۳۸۹]
    یحییٰ بن بکیر لیث سے ،وہ عقیل سے ،وہ ابن شہاب سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں مجھے عروہ نے خبر دی کہ:’’ انہوں نے زوجۂ رسول اللہ ﷺ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ بتائیے (فرمان خداوند ی) جب رسول مایوس ہو گئے اور انہیں یہ گمان ہوا کہ ان کی قوم انہیں جھٹلا دے گی میں’’ کذبوا‘‘ کے ذال پر تشدید ہے یا نہیں؟ یعنی ’’ کذبوا‘‘ہے یا تو انہوں نے فرمایا (’’ کذبوا‘‘ہے) کیونکہ انکی قوم تکذیب کرتی تھی میں نے عرض کیا بخدا رسولوں کو تو اپنی قوم کی تکذیب کا یقین تھا (پھر’’ ظنوا‘‘ کیونکر صادق آئے گا) تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اے عریہ (تصغیر عروہ) بے شک انہیں اس بات کا یقین تھا میں نے عرض کیا تو شاید یہ کذبوا ہے ۔عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :معاذ اللہ !انبیاء اللہ کے ساتھ ایسا گمان نہیں کر سکتے (کیونکہ اس طرح معنی یہ ہوں گے کہ انہیں یہ گمان ہوا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا یعنی معاذ اللہ خدا نے فتح کا وعدہ پورا نہیں کیا لیکن مندرجہ بالا آیت میں ان رسولوں کے وہ متبعین مراد ہیں جو اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے تھے اور پیغمبروں کی تصدیق کی تھی پھر ان کی آزمائش ذرا طویل ہوگئی اور مدد آنے میں تاخیر ہوئی حتیٰ کہ جب پیغمبر اپنی قوم سے جھٹلانے والوں کے ایمان سے مایوس ہو گئے اور انہیں یہ گمان ہونے لگا کہ ان کے متبعین بھی ان کی تکذیب کر دیں گے تو اللہ کی مدد آ گئی ۔
    اس حدیث میں غورفرمائیں کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا یہاں اعراب پربحث کی ہیں اس سے ثابت ہو اکہ اعراب اورزبرزیرقرآن میں پہلے ہی سے ہے۔
    ساتویں دلیل:
    اللہ نے نبی ﷺ سے اس بات کی نفی کی ہے کہ وہ اس قرآن میں اپنی طرف سے کچھ داخل نہیں کرسکتے اوربالفرض وہ اگرایسا کرنے کو کوشش کریں گے تو ہم ان کی شہ رگ کاٹ دیں گے، ارشاد ہے:
    {تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ ۔وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ۔لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ۔ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ۔فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ}
    ’’(یہ تو (رب العالمین کا) اتارا ہوا ہے۔اور اگر یہ ہم پر کوئی بات بنا لیتا ،تو البتہ ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے،پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے ،پھر تم سے کوئی بھی مجھے اس سے روکنے والا نہ ہوتا‘‘
    [الحاقۃ:۴۳۔۴۷]
    غورکریں کہ جب اللہ کے نبی ﷺ کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ قرآن میں اپنی طرف سے کچھ داخل کرسکیں ، اوربالفرض ایسا کرنے پرانہیں سخت وعید سنائی گئی ہے تو ایک معمولی انسان کواتنی جرأت کیسے ہوگئی کہ وہ پورے قرآن میں اپنی طرف سے زبرزیرداخل کردے ۔
    آٹھویں دلیل:
    اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ قرآن مخلوق نہیں ہے ، اب بتائیے کہ جوچیز غیرمخلوق ہے اس میں مخلوق اضافہ کیسے کرسکتی ہے؟
    نویں دلیل:
    اللہ نے اس بات کی ذمہ داری لی ہے کہ وہ قرآن مجید کواپنی اصلی شکل میں محفوظ رکھے گا،ارشادہے:
    {إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ }
    ’’قرآن کو ہم نے ناز ل کیا ہے اورہم ہی اس کے محافظ ہیں‘‘
    [الحجر:۹]
    غورکریں کہ جس چیز کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے لے رکھی ہے ،اس میں کوئی چیز گھٹانے یا بڑھانے کی جرأت کسے ہوسکتی ہے؟معلوم ہوا کہ قرآن اب بھی اپنی اصلی شکل میں محفوظ ہے اس میں کسی بھی چیز کا اضافہ نہیں ہواہے۔
    لہٰذا زبرزیرلازمی طورپرقرآن مجید میں پہلے ہی سے موجودہے البتہ شروع میں اسے لکھا نہیں گیا تھااوربعدمیں اسے لکھ دیا گیا۔
    دسویں دلیل:
    اگرلکھنے سے کوئی چیز نئی ہوجاتی،تو لازم آئے گا کہ پورا قرآن بھی بعدمیں بنایا گیا ہے۔
    اس لیے کہ جبرئیل علیہ السلام نے نبی ﷺ کو جوقرآن پیش کیا وہ لکھا ہوا نہیں تھا ،پھراللہ کے نبیﷺ نے جوقرآن صحابہ کو پڑھ کرسنایا وہ بھی لکھا ہوانہیں تھا ،البتہ نبیﷺ سے سننے کے بعدصحابۂ کرام نے اسے لکھ لیا،تو کیا یہ کہہ دیاجائے کہ پوراقرآن بھی اسلام میں منجانب اللہ پہلے ہی سے نہیں تھا اسے صحابۂ کرام نے اپنی طرف سے بنایاہے؟
    لہٰذا جس طرح قرآن کوبعدمیں لکھنے سے وہ نیا نہیں ہوجاتااسی طرح زبرزیرکوبھی بعدمیں لکھنے سے وہ نیا نہیں ہوجائے گا۔
    تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ۔
    اب اگرکوئی کہے کہ ٹھیک ہے کہ زبرزیرپہلے سے موجودتھا اوراس کے لکھنے سے قرآن میں اضافہ بھی نہیں ہوتا لیکن فی نفسہٖ یہ لکھنا توایک نیا عمل ہے ، لہٰذا بدعت ہوا۔
    توعرض ہے کہ زبرزیرلکھنا بدعت ہرگزنہیں ہے کیونکہ اس کے لکھنے کی دلیل موجودہے، ملاحظہ ہو:
    عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَمْرٍو، قَال:’’كُنْتُ أَكْتُبُ كُلَّ شَيْئٍ أَسْمَعُهُ مِنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرِيدُ حِفْظَهُ، فَنَهَتْنِي قُرَيْشٌ وَقَالُوا:أَتَكْتُبُ كُلَّ شَيْئٍ تَسْمَعُهُ وَرَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَشَرٌ يَتَكَلَّمُ فِي الْغَضَبِ، وَالرِّضَا، فَأَمْسَكْتُ عَنِ الْكِتَابِ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَوْمَأَ بِأُصْبُعِهِ إِلَي فِيهِ، فَقَالَ:اكْتُبْ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّا حَقٌّ‘‘
    صحابیٔ رسول عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:’’ میں رسول اکرم ﷺ سے جو باتیں سنا کرتا تھا انہیں لکھا کرتا تھا یاد کرنے لیے۔ لیکن مجھے قریش نے منع کیا اور کہنے لگے کہ تم رسول ﷺ کی ہر بات کو جو سنتے ہو لکھ لیا کرتے ہو حالانکہ رسول اکرم ﷺ بشر ہیں (اور بشری تقاضا کی وجہ سے آپ کو غصہ بھی آتا ہے، خوشی کی حالت بھی ہوتی ہے) اور آپ کبھی غصہ میں اور کبھی خوشی کی حالت میں گفتگو کرتے ہیں لہٰذا میں نے کتابت سے ہاتھ روک لیا اور اس کا تذکرہ رسول اکرمﷺ سے کیا، آپ ﷺنے اپنی انگلیوں سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ لکھا کرو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس منہ سے سوائے حق کے اور کچھ نہیں نکلتا ہے‘‘
    [ سنن أبی داؤد:۳؍۳۱۸رقم: ۳۶۴۶]
    اس حدیث میں آپ ﷺنے اپنے منہ سے نکلی ہوئی ہرچیز کو لکھنے کی اجازت دی ہے اورقرآن بھی آپﷺ کے منہ سے تلاوت ہوکرامت کو ملاہے اورپہلے واضح کیا جاچکا ہے کہ تلاوت زبرزیرکے ساتھ ہی ہوتی ہے،گویا کہ زبرزیربھی آپﷺ کے منہ سے ہی نکلا ہے،لہٰذامذکورہ حدیث میں اس کے لکھنے کا بھی جواز موجودہے۔
    لہٰذا قرآن مجید میں زبرلکھنے پراس حدیث سے دلیل موجودہے۔
    اللہ کے نبی ﷺ کے دورمیں زبرزیرنہیں لکھا گیا کیونکہ اس وقت کسی نے اس کی ضرورت محسوس نہ کی گرچہ اس کا جواز موجود تھا، لیکن ہمیں اس کی ضرورت ہے اس لیے اس جواز پرعمل کرتے ہوئے ہمارے لیے زبرزیرلکھ دیاگیا۔
    خلاصۂ کلام یہ کہ زبرزیرلکھنے پردلیل موجودہے لہٰذا یہ بدعت نہیں۔
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings